نہ تو دشت ہے نہ صحرا نہ یہاں کوئی دوانہ
یہ دیارعشق ہی ہے یا کوئی خراب خانہ
مری منزل تمنا کوئی در نہ آستانہ
مرے لب پہ عمر بھر ہو تری مدح کا ترانہ
تجھے کیا سناؤں ہم دم میں کلام دل کہ تیرا
نہ شعور دل نوازی نہ مزاج عاشقانہ
ذرا کھل کے گفتگو کر یہ لحاظ کس لیے ہے
یہ ہے محفل رفیقاں یہ ہے بزم دوستانہ
وہ اسی لیے تھے شاداں کہ رفیق سوز و غم تھے
انھیں کب تھا زندگی سے کوئی ربط دل برانہ
وہی دے رہے ہیں ہم کو ابھی درس آدمیت
کہ گزر رہے ہیں جن کے شب و روز مجرمانہ
انھی حسرتوں میں دیکھو کہیں چھپ کے رہ رہے ہیں
وہ مسرتوں کے موسم وہ نشاط کا زمانہ
ہمیں یاد ہے ابھی تک وہ بہار نو محبت
وہ کبھی ترا تغافل وہ کبھی ترا بہانہ
مری بستی وفا پر ہے عذاب بے نوائی
سو لٹا ہوا ہے دیکھو یہاں ہر شعور خانہ
کبھی غم کی ہجرتوں سے جو قرار ہم کو آتا
تو ہمیں بھی مل ہی جاتا کوئی در کوئی ٹھکانہ
ترے دل کے طاقچوں پر جو چراغ جل رہے ہیں
ہیں حریف راہ شب وہ، ہیں نقیب شمع خانہ
وہ اسی لیے جہاں میں ابھی منفرد ہیں فائز
کہ جنوں کو ان کے حاصل ہے ادائے عارفانہ
فائز صاحب بہت ہی اعلی درجے کا کلام ہے آپ کا. مبارک