میں ہوں موجود یا نہیں موجود

محمد وسیم مخلصؔ شعروسخن

آگ، پانی، ہوا، زمیں موجود

کیسے کہہ دوں کہ تو نہیں موجود


مر چکا ہوں مگر ابھی مجھ میں

زندگی ہے کہیں کہیں موجود


میرے ہونے کا حال دیکھنا تھا

جب تھا پہلو میں وہ حسیں موجود


تو ملے گا مجھے کبھی نہ کبھی

کیوں مرے دل میں ہے یقیں موجود


تھک کے سوجائیں، گھٹ کے مرجائیں

یہ سہولت ہے بس یہیں موجود


کیوں ہوا پھر میں عشق میں ناکام

ساری آسانیاں تو تھیں موجود


ہو قرائن سے ہی یہ طے مخلصؔ

میں ہوں موجود یا نہیں موجود

آپ کے تبصرے

3000