مری حسرتوں کو لباس دے

رشدی ندا شعروسخن

گہ آشنائے امید کر، گہ رمز گرمیٔ آس دے

کوئی زندگی کا پتہ بتا، مری حسرتوں کو لباس دے


مری ذات پر نگہ کرم، مرے کارساز ہو دم بہ دم

نہ غریق یاس و قنوط کر، نہ مقام خوف و ہراس دے


میں ہوں ایک ذرّۂ ناتواں، تری ذات رحمت بیکراں

تو ہی پتھروں کو گہر کرے، تو ہی مٹیوں کو کپاس دے


کبھی میرے دل سے نہ مٹ سکے، جو لبوں پہ آ کے نہ بجھ سکے

تری چاہتوں کی تلاش میں، وہی شوق دے وہی پیاس دے


وہ جو سن سکے مری خامشی، جو سمجھ سکے مری بے کلی

جو نفس نفس مجھے پڑھ سکے، کوئی ایسا حرف شناس دے

آپ کے تبصرے

3000