خبر نہیں کچھ، بھلا ہوا تھا، برا ہوا تھا
’’نہ اس نے سمجھا، نہ میں نے سمجھا کہ کیا ہوا تھا‘‘
مجھے کسی کے بچھڑنے ملنے سے کیا غرض تھی
کہ میں تو وحشت سے اندروں تک بھرا ہوا تھا
جہاں جہاں پر بھی ذکر اس کا تھا داستاں میں
وہاں محبت کا استعارہ لکھا ہوا تھا
تمام شب ہم نے جس کو مل کر کیا تھا روشن
سحر ہوئی تو وہی ستارہ بجھا ہوا تھا
یونہی نہیں جشن فتح برپا تھا اس کے رخ پر
میں اس کے آگے یقین بن کر کھڑا ہوا تھا
شجر محبت کا خشک ہونے میں وقت لے گا
تری توجہ کی اوس پی کر ہرا ہوا تھا
وہ میری آنکھوں سے قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہے
نفس نفس جو کبھی مرا مبتلا ہوا تھا
آپ کے تبصرے