بس تو ہو میرے سامنے چاہے جہاں نہ ہو

سحر محمود شعروسخن

کیا غم اگر یہ شمس، قمر، کہکشاں نہ ہو

بس تو ہو میرے سامنے چاہے جہاں نہ ہو


کیوں بولتا نہیں ہے کوئی ظلم کے خلاف

سب ایسے چپ ہیں جیسے کہ منہ میں زباں نہ ہو


نظریں جھکیں تو صرف جھکیں رب کے سامنے

اس کے سوا دعا ہے کوئی مہرباں نہ ہو


ان دھڑکنوں میں بین کی آواز آئے گی

سنتی ہے کب یہ دنیا جو شور فغاں نہ ہو


اک شخص جس کا ذکر نہیں داستان میں

اس کے بغیر پوری مری داستاں نہ ہو


وہ اب بھی میرے واسطے کس درجہ ہے اہم

کرنا بھی میں جو چاہوں تو مجھ سے بیاں نہ ہو


اب تک ہمیں تو کوئی بھی ایسا نہیں ملا

کچھ جس پہ زندگی یہاں بار گراں نہ ہو


اس سے بڑا کوئی نہیں فن کار جس کے پاس

غم تو بہت ہوں چہرے سے لیکن عیاں نہ ہو


جس کے خلاف سارے شواہد بھی جمع ہوں

ہے حکم شرع اس سے کوئی بد گماں نہ ہو


میں اس کو جانتا ہوں بہت ہی قریب سے

“ممکن نہیں خیال یہاں ہو وہاں نہ ہو”


اس گلستاں کے پھولوں کا کیا ہوگا سوچیے

جس گلستاں کے پاس سحر باغباں نہ ہو

آپ کے تبصرے

3000