سوال دل میں کئی تھے جواب کوئی نہ تھا

رشدی ندا شعروسخن

بچھڑتے وقت مرا ہمرکاب کوئی نہ تھا

سوال دل میں کئی تھے جواب کوئی نہ تھا


میں اس سے پوچھ کے اب شرمسار کیا کرتی

جوازِ ہجر تو عالیجناب کوئی نہ تھا


میں آنسوؤں کے سوا اور اس کو کیا دیتی

جہاں وہ چھوڑ رہا تھا گلاب کوئی نہ تھا


گئے رُتوں کے حوالے بھی کیا دیے جاتے

وفا کے باب میں اپنا حساب کوئی نہ تھا


مری وفا کا یقیناً کوئی جواب نہیں

بچھڑنے والے ترا بھی جواب کوئی نہ تھا


وہ کوئی بات بھی کھُل کر نہ کہہ سکا رُشدیٰ

ہمارے بیچ تو جبکہ حجاب کوئی نہ تھا

آپ کے تبصرے

3000