معلوم کر نہ پائے بقا کا سراغ لوگ
بس دیکھتے دکھاتے رہے سبز باغ لوگ
ہم کشتیِ جنوں سے کہاں تک پہنچ گئے
ساحل سے دیکھتے رہے حاضر دماغ لوگ
رکتی نہیں کسی کے لیے وقت کی ہَوا
جل بجھ کے ختم ہو گئے کتنے چراغ لوگ
سنتے سناتے رہتے ہیں سب داستانِ عشق
دھوتے نہیں کبھی کسی مجنوں کے داغ لوگ
معلوم ہے کہ زہر ہے مے میں ملا ہوا
پھر بھی نہیں ہٹاتے لبوں سے ایاغ لوگ
مل جائے چار دن کے لیے دانۂ قفس
طوطے کی مثل بولنے لگتے ہیں زاغ لوگ
دو چار شعر کیا ہوئے موزوں کسی طرح
خود کو گمان کرنے لگے میر و داغ لوگ
شاد ایسے شاد کام کی غم ناک شاعری
اس پر بھی تبصرہ کریں حاضر دماغ لوگ



آپ کے تبصرے