میں خود کو بھول جانا چاہتا ہوں

م . ع . اسعد شعروسخن

فلک پر آشیانہ چاہتا ہوں

میں اتنا اونچا جانا چاہتا ہوں


رہیں پاؤں مگر میرے زمیں پر

ہنر وہ معجزانہ چاہتا ہوں


حسد، کینہ، عداوت، بغض، نفرت

دلوں سے سب مٹانا چاہتا ہوں


کسی کے مال کا لالچ نہیں ہے

تعلق مخلصانہ چاہتا ہوں


جنھیں پروا نہیں ہے میری ان پر

میں کیوں خود کو مٹانا چاہتا ہوں


خیال یار اتنا پر سکوں ہے

میں خود کو بھول جانا چاہتا ہوں


میں اس کے بن نہ زندہ رہ سکوں گا

اسے مر کر بتانا چاہتا ہوں


ادائیں ہیں تمھاری اتنی قاتل

میں خود کو ہار جانا چاہتا ہوں


تمھارے ساتھ کچھ پل اور رہ لوں

کوئی ایسا بہانہ چاہتا ہوں


تری آنکھیں سمندر ہیں یا جادو

کہ ان میں ڈوب جانا چاہتا ہوں


صنم میں چھوڑ کر سارے جہاں کو

ترے دل میں ٹھکانہ چاہتا ہوں


زمانے بعد آمد ہے کسی کی

میں رستے کو سجانا چاہتا ہوں


مجھے پاگل سمجھتی ہے یہ دنیا

میں روتوں کو ہنسانا چاہتا ہوں


کمر جن کی غموں نے توڑ ڈالی

میں بوجھ ان کا اٹھانا چاہتا ہوں


وہی مجھ کو گرانے میں لگے ہیں

جنھیں اوپر اٹھانا چاہتا ہوں


میں رشتے آزمانے کے بجائے

تعلق کو نبھانا چاہتا ہوں


گناہوں کو مٹانے کے لیے اب

میں اشکوں سے نہانا چاہتا ہوں


مرا چہرہ بتا دیتا ہے، جب بھی

میں دردِ دل چھپانا چاہتا ہوں


میں روٹھا ہوں خود اپنے آپ اسعد

خودی کو ہی منانا چاہتا ہوں

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
طارق أشرف

بہت خوب ماشاء اللہ