صدیاں گزر گئی ہیں رہ انتظار پر
گھبرا کے سو نہ جاؤں میں دوش غبار پر
خود ہی تباہ کرتا مگر حال دل کو اب
موقوف کر رکھا ہے ستم گر کے وار پر
سرکش ہیں جان و دل کہ یہ تکمیل عشق میں
ماریں نہ سر غضب سے جنوں کی دیوار پر
یہ بھی تو کم نہیں کہ دھڑکتا ہے دم بہ دم
کیا لادیں اور بوجھ دل بے قرار پر
شب دیر تک میں خیمۂ وحشت میں دم بخود
تڑپا کیا شکست تمنا کے دار پر
عہد شباب فکر غم جاں میں زرد ہے
جیسے خزاں کی شال ہو دوش بہار پر
دیکھے گا کون ہائے کف پا کے آبلے
چلنے کو چل پڑا ہوں سفر کی پکار پر
جینے کی آرزو میں یہ انسان مر گیا
لکھنا یہ مصرعہ میری لوح مزار پر
سبحان اللہ
Assalamualaikum alhamdulillah