کوئی پناہ کوئی بھی جائے اماں نہ ہو
یارب جہاں میں کوئی کبھی بے مکاں نہ ہو
وہ ابتلا کہ جس سے گزارے گئے ہیں ہم
ایسے کسی حریف کا بھی امتحاں نہ ہو
ہوش و حواس پر ہو مسلط ہر ایک پل
اتنا بھی میرے یار کوئی مہرباں نہ ہو
اے دل کسی عزیز کی رحلت نہ پوچھیے
لگتا ہے جیسے سر پہ کوئی آسماں نہ ہو
ہو زندگی سے اتنی سہولت نصیب کہ
آساں نہ ہو، تو نہ سہی، لیکن گراں نہ ہو
ہر بات صاف لہجے میں کہہ دیجیے جناب
تاکہ کسی کو شکوہ کوئی کل کلاں نہ ہو
تپتا ہوا وجود ہے صحرائے زیست میں
جب تک محبتوں کا ندا سائباں نہ ہو
آپ کے تبصرے