انگلش میڈیم اسکول اور ہماری ذمہ داریاں

عبدالرحیم امینی عصری علوم

قوموں کے عروج وزوال میں تعلیم اور نصاب تعلیم کی اہمیت مسلم و متفق علیہ ہے۔ ایجوکیشن نےمغلوبوں کو غالب اور غالبوں کو مغلوب بنا کر قعر مذلت میں پھینک دیا۔ علم کے میزائل کے ذریعہ آسمان سے ہمارے فوجیوں پر ایسی یورشیں کی گںکر کہ ہماری ہڈیوں تک کا پتہ نہیں لگ سکا۔ صلیبی جنگوں میں پے در پے شکست کے بعد اقوام عالم نے اس حقیقت کو بے چوں وچرا تسلیم کر لیا کہ مسلمانوں کو زمینی معرکوں میں ہم زیر نہیں کر سکتے۔انیںی دھول چٹا نے کے لیے ہمیں رصد گاہوں میں بیٹھ کرتجربات وتلاش کی نئی راہیں ہموار کر نی ہوں گی۔
ان متلاشیوں کو سائنس اور ٹکنالوجی کی ایک نئی دنیا مل گئی اور یہیں ہم سوگئے اور اس وقت خواب غفلت سے بیدار ہوئے جب ہم کو ہر چہار جانب سے گھیر لیا گیا۔
ہمارے مد مقابل کے پیش نظر فقط دنیا اور اس کی سر بلندیاں تھیں، دین اور اس کے تقاضوں سے کچھ سرو کار نہیں تھا اس لیے اپنی ساری توانائیوں کو صرف اور صرف اقتدار طلبی کی راہ پر ڈال کر جہاں بانی کے مسند پر قابض ہوگئے۔ ہمارے سامنے سلطنت وحکومت کے علاوہ اپنے دین کا تحفظ بھی تھا۔ مسلم عوام نے کسی حد تک اپنے آپ کو دین سے وابستہ بھی رکھا مگر ہمارے بہتیرے ایسے جہاں بان آتے رہے جن پر دین کی گرفت انتہائی کمزور تھی نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کے ساتھ ہم اپنا دین بھی گنوا بیٹھے۔ ہماری تہذیب ہمارا تمدن سب کچھ اپنی اصل شکل و صورت سےنامانوس ہو کر رہ گیا بلکہ اغیارکے طور طریق ہماری معاشرتی زندگی میں کچھ اس طرح در آئے کہ شناخت مشکل ہو گئی۔ ہم کو ہمسایوں ہم وطنوں کی تعلیم اور طرز زندگی ایسی بھائی کہ ہم اپنی ثقافت اور امتیاز ات سے بے بہرہ ہوگئے۔دوسروں کی وضع قطع ایسی جچی کہ اپنی وضع دار ی بھی بھول گئے۔
برصغیر کے نامور مصنف اور صاحب طرز ادیب کر نل محمد خان نے بجا فرمایا تھا:
پہلے ہر گھر میں ایک امی جان ہوتی تھیں اور ایک ابا جان کبھی لاڈ میں آئے تو ہم انھیں امی اور ابو کہہ لیتے تھے۔ ان دو الفاظ میں محبت کی ایک دنیا آباد تھی اور یہ ہماری ثقافت کا محبوب ترین سرمایہ تھا ۔جوں جوں دولت اور انگریزی عام ہو ئی مائیں تیزی سے ممیاں بننے لگیں اور باپ ڈیڈیوں میں تبدیل ہوگئے۔ میں جس گھر میں ان کا استعمال دیکھتا ہوں ان کے کلچر میں ملاوٹ محسوس ہوتی ہے یہ ہماری قومی وضعداری کے منافی ہے اور وضعداری عظمت کی نشانی ہے۔ وضعداری غریبی میں خودی کی نگہبانی ہے۔ ممی ڈیڈی کا استعمال قرآن کی رو سےتو شاید ناجائز نہیں لیکن وضعداری اور عزت نفس کے اعتبار سے ہماری شان کے شایان نہیں۔
کرنل صاحب لباس اوردل ودماغ کے ٹیڑی پن کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
زبان کا ٹیڑی پن لباس کے ٹیڑی پن سے کہیں زیادہ مہلک ہے حالانکہ لباس کے ٹیڑی پن کے متعلق ہم ضرورت سے زیادہ حساس واقع ہوئے ہیں ذرا لڑکوں لڑکیوں کو چست لباس میں دیکھ لیں تو ہمیں ملت ودین کا مستقبل تاریک نظر آنے لگتا ہے۔ بے شک ہمارے طلبا ء وطالبات ذرا ڈھیلے کپڑے پہن لیں توانیںا سانس لینے میں آسانی ہو لیکن عالم شباب میں سانس لینا ہی سب سے اہم بات نہیں۔ بہر حال لباس کا ٹیڑی پن اتنی بڑی ٹریجڈی نہیں جتنا دل ودماغ کا ٹیڑی پن اور آپ جانتے ہیں کہ دل ودماغ کا ٹیڑی پن کیا ہوتاہے۔ ایک زمانہ تھا کہ استاد یاباپ کی نصیحت سن کر جی چاہتا تھا ہدیہ دل پیش کیجیے لیکن آج نصیحت کے جواب میں فرزند دل بند ہنس کر کہتے ہیں:don’t be silly dad (ڈیڈ نادان نہ بنیں)
اور دختر نیک اختر کا انداز امی جان کے متعلق قطعی طور پر سر پرستانہ ہے ہر سہیلی کو بتاتی پھر تی ہیں:
Poor Mummy she is utterly old fashioned
(میری بھولی بھالی ماں انتہائی پرانے خیالات کی ہیں)
یہ ہےپسر ارجمند اور دختر اسلام کی بولی اور والدین کے جذبہ محبت ومودت کا صلا
جوانی کی دعا بچوں کو ناحق لوگ دیتے ہیں
مٹاتے ہیں جو انی کو یہی بچے جواں ہو کر
اور یہ سب انگلش میڈیم کے فیوض و برکات ہیں۔
میں انگریزی مخالف نہیں بلکہ انگریز دشمن بھی نہیں بحیثیت مسلمان ان کے افکار ونظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔
مجھے میڈیم کو لے کر تشویش ہے۔ برصغیر میں جہاں صوبائی اور علاقائی زبانیں چلتی ہیں ہندی اور اردوعام طور پر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہی خطبات اور دعوت کی زبان ہے اور عام طور پر دعوتی لٹریچر اسی زبان میں لکھے اور پڑھے جاتے ہیں۔ اس طرح اردو ہماری تہذیب اور ثقافت کی زبان بن چکی ہے اور شایداسی لیے ہم وطنوں کی طرف سے اس کی مخالفت بھی ہو تی ہے اردو کو بھی مسلمان سمجھا جاتا ہے ایک طرف اسے ٹوپی پہنا کر اس کی مسلمانی کی جارہی ہے دوسری طرف انگلش میڈیم کے چہرے سے ہم خود بھی اسے حلال کر رہےہیں سسکیاں تو پہلے سے لے رہی ہے بس دم توڑناباقی ہے فواحسرتاہ۔
سعودی درسگاہوں کا میڈیم عربی ہے دیگر عربی ممالک کا ذریعہ تعلیم عربی ہے۔ ایران کی زبان تدریس فارسی ہے،ہند وپاک میں پڑھائی کی زبان انگریزی ہو آخر اس کی وکالت کیسے کی جا سکتی ہے منطقی لحاظ سے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔
کرنل محمد خان لکھتے ہیں:
آخر اس ذہنی کجروی کی وجہ کیا ہے اس ضمن میں میرااپنا نظریہ ہے اور وہ یہ کہ اس کی بنیاد ی وجہ انگریزی کا ذریعہ تعلیم ہو نا ہے بلکہ میرے نزدیک معاشرے کی بے شمار برائو ں کی جڑ انگلش کا تعلیمی میڈیم ہوناہے۔
خان صاحب مزید لکھتے ہیں:
مجھے انگریزی زبان سے قطعاً کوئی بیر نہیں انگریزی میں علم وادب کا انمول خزانہ ہے اور اس خزانے کی تہ تک پہنچنا خوبی قسمت کی انتہا ہےبلکہ خوش قسمت لوگ انگریزی علم و ادب کی اس حد تک پہنچ جاتے ہیں ان کی طبیعت میں ٹیڑی پن کے بجائے ایک آسودگی بخش ٹہراؤ آجاتا ہے ان کے ظرف میں پختگی اور وسعت پیدا ہو جاتی ہے لیکن انگریزی پڑھنا اور چیز ہے اور انگریزی میں پڑھنا اور چیز خصوصاً ابتدائی جماعتوں میں کیونکہ اگرپانچ چھ سال کےبچے کا ذریعہ تعلیم انگریزی ہو تووہ صرف انگریزی ہی نہیں سیکھتا انگریزیت بھی سیکھتا ہے گویا ٹیڑی پن انگلش میڈیم کی ضمنی پیداوار ہے یہ نیم پختہ اور نو عمر طلباء وطالبات کی بیماری زیادہ واضح الفاظ میں ٹیڑی پن چھوٹی عمر میں انگریزی کی بد ہضمی کا نتیجہ ہے لہذا قدرتی طور پر انھی اسکولوں تک محدود ہے جن کا شروع سے ہی ذریعہ تعلیم انگریزی ہے۔بچے پھر پھر انگریزی بولتے ہیں ممی ڈیڈی خوش ہوکرماشاءاللہ کہو دیتے ہوں گے اور بچہ نہیں جانتا یہ ماشاءاللہ کس چڑیے کا نام ہے۔
شاعر مشرق اس ڈرامے کے جس سین کے منتظر تھےاور ان کی نگاہ جس پردہ اٹھنے کے انتظار میں تھی وہ قریب قریب آج روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے اور اس کی مثال مندرجہ ذیل شعر سے سمجھی جا سکتی ہے؎
پوتے نے دادا کا فوٹو یہ کہہ کر باہر ڈال دیا
میرا البم نیا نیا ہےیہ تصویر پرانی ہے
جب باپ طبلے بجائے گا تو لازمی طور پر اس کے بچے ناچیں گے، یہ اولو الالباب کے لیےمقام عبرت ہے۔
اردو کسی غیر کی کیا شکایت کرے جب اپنوں نے ہی اسے بیگانہ بنا دیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو پاکستان کے سرکاری دورے پر تشریف لے گئے پاکستانیوں نے انگریزی میں ایڈریس دیا نہرو جی نے امتنان وتشکر کے کلمات اردو میں پیش کر کے ان کی تہذیب اوران کی زبان کا آئینہ دکھلا دیا۔ اسی موقع پر جوش ملیح آبادی نے بطور طنز کہا تھا ان کی مادری زبان گو اردو ہے پر پدری زبان انگریزی ہی ہے یا للعجب
اردو کے خدائی خدمتگار وں کی فہرست بہت طویل ہے۔اس میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ ہندو شعراء اور مصنفین بھی رہے ہیں۔تلوک چند محروم، گوپی ناتھ امن، دیوان سنگھ مفتون، رگھو پتی سہائے فراق گورکھپوری، کرشن چندر، یشپال، مہندر ناتھ، پرکاش پنڈت، ستیش بترا، وی شنکر کے نام تو کم لوگ جانتے ہوں گے لیکن مالک رام، رام لعل، گوپی چند نارنگ، کنور مہندر سنگھ بیدی اور عرش ملسیانی وغیرہم کو کون نہیں جانتا۔
ہمیں دوسروں سے کیا گلہ جب ہم نے خود ہی اپنی تہذیب کی زبان کو بے یارومددگار سسکنے بلکنے پر مجبور کر دیا اور انگریزی کواس کی بدیسی سوکن کے طور پر کچھ اس طرح گلے لگا لیا کہ اس کے قدموں میں نقد دل وجان رکھ دی اور اردو بیچاری اب صرف اور صرف نعروں میں گھسیٹی جاتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ذلیل وخوار کی جاتی ہے۔
اردو میں جس فارسی زبان کے ذریعہ چاشنی پیدا ہو تی تھی اس کے اخراج مبارک کی تیاریاں شد و مد کے ساتھ ہو رہی ہیں اوراسی جگہ پر ہندی اور انگریزی کو بٹھانے کی مذموم کوششیں چل رہی ہیں چنانچہ ہندی انگریزی کے معجون مرکب کا نام اردو رکھ دیا گیا ہےبحالت مجبوری اردو کے بھی بعض منافق الفاظ شامل کر لیے جاتے ہیں۔جیسے تھا تھی تھے میں نے ہے وغیرہ۔
اُردوسے ہزار دشمنی کے باوصف بر صغیر میں تا دم تحریرانگلش غزلیہ مشاعرہ منعقد نہیں ہو سکا۔ کبی سممیلن تو ہو تے ہیں پر ہندی کی صراحی سے اردو اور فارسی کی دخت رز ہی انڈیلی جا تی ہے۔
انگلش میڈیم کی ماں نے آج تک غزل کی بہن قصیدے کا بھائی اور رباعی کی سہیلی پیدا نہیں کی اور مشاعرے کے چھوٹے بھائی کا بھی کہیں اتہ پتہ نہیں چلتا۔
اردو سے جن کا رشتہ استوار رہا ان کو عزت و شہرت کی بہشت بریں ملی۔ اقبال، قدرت اللہ شہاب، مختار مسعود،فراق رشید احمد صدیقی وغیرہم انگلش زبان میں بھی اتھارٹی کا در جہ رکھتے تھے لیکن انھیں مقبولیت اسی زبان کی وجہ سے ملی اور ان لوگوں نے اپنے قلم کی زبان انگریزی کے بجائے اردو ہی کو رکھا۔ خود مولانا آزاد رحمہ اللہ کی گرفت انگریزی پر اتنی زبردست تھی کہ نہرو جی سے بھرے اسٹیج سے کہو دیتے ذرا سنٹینس صحیح کر لیجیے لیکن صحافت کا قلم اردو نگارہی رکھا۔ حسرت موہانی اپنی اردو معلی کی وجہ سےآج بھی زندہ و جاوید ہیں ۔
مسلمانوں کاالمیہ یہ ہے کہ یہ اپنی عظمت رفتہ کی تلاش میں اس قدر سرگرداں ہیں کہ یہ اپنی تہذیب تک بھول گئے اور اغیار سے اس حد تک مرعوب ہوگئے کہ اپنی ثقافت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور معاملہ بایں جا رسید کہ آمیزش کے بغیر ہمارا کوئی عمل منزل تکمیل تک پہنچتا ہی نہیں ۔اس کی جیتی جاگتی مثال یہ ہےکہ میرے حال کے دو مضامین پر میرےبعض اردو داں کرم فرماؤں نےتائیدی کلمات انگریزی رسم الخط میں لکھ کر ہماری تشجیع فرمائی حتی کہ ماشاءاللہ کو بھی انگریزی کا سوٹ بوٹ پہنا دیا گیا۔ع
چوں کفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی
میں نے ایک صاحب کو اردو کے ساتھ اس بے اعتنائی پر متنبہ کیا جواب آیا میرے موبائل میں اردو کا آپشن موجود نہیں۔ موبائل کے بارے میں میری معلومات مولویانہ ہے اس لیے خاموشی میں عافیت محسوس ہوئی حالانکہ ہمارے یہ احباب مدرسے سے نکل کر دنیا کی وسعتوں میں پہنچے ہیں۔ یہ رویہ جب اردو ذریعہ تدریس کے حاملین کاہے آگے انگلش میڈیم کے طلباء کیا کچھ گل کھلائیں گے تصور سے فکر کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اس کے پیچھے انگریزی سے مرعوبیت، انگلش دانی کادھونس، اردو رسم الخط میں مسکنت وجہ بن سکتی ہے۔ بہر حال حساس طبیعتوں کے لےز لمحہ فکریہ ضرور ہے۔
گفتگو کے دوران بے ساختہ یا لکھتے ہوئے انگشت برداشتہ ہندی،انگریزی اور کسی دوسری زبان کے الفاظ کا استعمال معیوب نہیں پر انھیں ٹھونسناغارت گر ادبیت و انشایئت ہے۔ مولانا آزاد، مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کو کچھ لکھواتے ملیح آبادی ٹوکتے حضرت یہ اردو نہیں امام الہند فرماتے ؛میں جو کچھ لکو اوں لکھ دو، وہی اردو ہے۔
گریر سن، پروفیسر شیرانی، پروفیسر ژول بلوک،محمد حسین آزاد اور ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے اس زبان کی پیدائش نشو و نما کی تاریخ لکھی چند ہی سالوں بعد اس کی مرثیہ نگاری شروع ہو جائے گی اور وہ ہماری پیاری زبان جس کو دلی، مضافات دلی، ہریانہ و میوات، لکھنؤ اور دکن نے ہزارکوششوں سے آراستہ کیا تھا انگلش نے اس کے زلف وکاکل کچھ اس طرح پریشاں کردیے کہ یہ نازنین کے بجائے چڑیل نظر آنے لگی فوا حسرتاہ۔
انگلش میڈیم کے زہریلے اثرات ہماری روز مرہ کی زندگی میں صاف نظر آنے لگے ہیں۔ اس کی پہلی کارستانی تو یہ سامنے آئی کہ ہمارے نونہال اپنے مبادیات دین وعقیدہ سے بےبہرے ہو کر رہ گئے اوراسلام ان کی نظر میں عید، بقر عید،جمعہ، سحری اور افطاری کا نام بن کے رہ گیا ہےاور ان کے دین کے تحفظ کا صرف ایک ہی راستہ بچا ہے وہ جمعہ کے خطبات ہیں۔ اللہ جانے یہ بیچارے خطیبوں کی زبان سمجھ بھی پاتے ہیں یا نہیں اس لیے کہ ان کے ذہن ودماغ کے افق پر انگریزی کے گرد وغبار ہمیشہ چھائے رہتے ہیں۔ ممی اور ڈیڈی کواحمقوں کی جنت کی سیر سے فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ اپنے لخت ہاے جگر کی عاقبت کی بھی پرواہ کر لیں؎
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
گذشتہ چند سالوں میں بعض غیور طبیعتوں میں بیداری کی ایک لہر اٹھی ہے، سود وزیاں کی مردہ حس بیدار ہوئی ہے،علماء جسور کی جہد مسلسل اور فکر مندی کے نتیجے میں تعلیم کے حوالے سے انگلش میڈیم پر چہ میگوئیاں شروع ہو گئی ہیں، اس کے برے اثرات پر سوال وجواب کی یورشوں کا ایک سلسلہ جاری وساری ہے۔ نتیجے کے طور پر اس طرح کے اسکولوں میں بادل ناخواستہ بیچاری اردو کو بھی صف نعال میں جگہ ملنے لگی ہےلیکن یہ معمولی مرہم نہانی صرف ان اسکولوں تک محدود ہے جو مسلم اکثریت میں گرھے ہوئے ہیں اور یہاں بھی مسلم گارجینس کے ساتھ فریب کا ری ہو رہی ہے۔ اردو کی کتابوں میں بھول کر بھی کہیں دین کا نام نہیں آنے پاتا ہے۔ ژٹلیات کو اردو کا کرتا پائجامہ اور ٹوپی پہنا کر ببانگ دہل اعلان کیا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں اردو بھی شامل نصاب ہے اور اس کے لیے ایسے اساتذہ کا تقرر عمل میں لایا جاتا ہے جنیںہ اردو کے علاوہ سب کچھ آتا ہے۔ تلاش ہی ایسےمولی صاحب کی ہوتی ہےجن کے جسم اقدس و مقدس میں پیٹ کے علاوہ سب کچھ موجود ہو۔ اس لیے کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے تنخواہ میں معقولیت ہو نی چاہیے اور ہمارے نظماے مدارس اور اسکول مینیجروں نے اللہ کو حاضر و ناظر مان کر یہ قسم کھا رکھی ہے کہ اپنے مولویوں کو بنام تنخواہ صرف اتنا دیتے رہیں گے کہ یہ ذکر اللہ سے غافل نہ ہو نے پائیں ۔ والدین خوش ہیں بچے دین ودنیا دونوں پڑھ رہے ہیں، مینیجر خوش ہے کہ میاں صاحب اس کے دام تزویر میں خوب پنسے ، بچہ ہجے اور متن کی مصیبت میں پھنسا نہیں چاہتا۔ باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی
ہاں ایسے معدودے چند اسکول بھی تلاش بسیار کے بعد مل سکتے ہیں جہاں یہ تماشے نہیں ہو تے بلکہ اردو کو اس کا جائز حق میسر ہے۔ اس کا مینیجر حساس ہے، اس کا پرنسپل خدا ترس ہے لیکن اس کی کھوج میں چراغ رخ زیبا لے کر نکلنا پڑے گا۔
ایک بات اور بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ انگلش میڈیم اسکول فقط ڈھکوسلے ہیں۔ ان کی انگریزی صرف ایک ہؤا ہے ان کے پاس سوٹ بوٹ ٹائی اور ٹرانسپورٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں اوربچوں کواپنے مقدور کے مطابق یہاں سے بس اتنا مل جاتاہے جتنا کہیں اور بھی مل سکتاتھا اور ان اسکولوں نے ہم کو سوغات میں اور مہنگائواں کے ساتھ تعلیم کی مہنگائی کا تھپڑ رسید کیا ہے اور تعلیم غریب کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ غریب بچے دیکھا دیکھی امیروں کی تعلیم گاہوں میں جانے کی ضد کر رہے ہیں اور یہ ان کے والدین کے بس کا روگ نہیں۔ یہاں سے محرومیاں پیدا ہو تی ہیں اور اچھی تعلیم سے سماج کا ایک بڑا طبقہ محروم رہ جاتا ہے اور یہ بات انتہائی سنگین اور بے حد تشویشناک ہے۔
ضرورت ہے کہ مسئلے کی ہولناکیوں کو محسوس کیا جائے اور کوئی ایسا حل نکالا جائے جس سے تعلیم و تعلم کی راہیں ہموار ہو سکیں۔ اس کے لیے زر داروں کو آگے بڑھنا ہو گا، والدین کو اپنے فضول اوقات میں سے کچھ نہ کچھ وقت اپنے نونہالوں کو بھی دینا پڑے گا، اساتذہ اور ذمہ داران مدارس کو اللہ کے حضور جواب دہی کے احساس کے ساتھ اپنے فرض منصبی کو ادا کرنا پڑے گا اور ہم سب کو مل کر قتل گاہوں اور تعلیم گا ہوں میں امتیاز پیدا کر نا ہو گا۔ وبیداللہ التوفیق
والدین اپنی ذمہ داریوں کو بڑی زیرکی سے نبھاتے ہیں۔ کس بچے کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہےا بھلا ان سے بہترکون سمجھ سکتا ہے۔ یہ جو لخت ہاے جگر ٹہرے چنانچہ بزعم خویش تیز طرار بچے کو کانونٹ اسکولوں میں لمبی فیس مہنگے ڈریس سوٹ بوٹ ٹائی اور کم از کم انڈے کی خوبصورت ٹفن اور پانی کے چمکتے باٹل کے ساتھ بھیجتے ہیں۔ پھر بھی دل مضطر کو سکون نہیں ملتا خود مامتا یا باپتا کی بے پناہ محبتوں سے مجبور ہو کر ہر رورتلاوت واذکار کو بالائے طاق رکھ کر انگلیاں تھا م کر چچکارتے ہوئے ٹرانسپورٹ تک لے جاتے ہیں۔ اسکول وین کا ایسے انتظار فرماتے ہیں جیسے کسی زمانے میں اپنی سلماؤں زلیخا ؤں کی راہوں میں پلکیں بچھائے کھڑے رہا کرتے تھے۔گھر واپسی پر امیرالبیت کو تشفی بخش جواب بھی مرحمت فرمانا پڑتا ہے۔
دل کا دوسرا ٹکڑا جو چنچل نہیں بھولا بھالا تھا بلکہ بچپن ہی میں ولی کامل وعاجل دکھتا تھا والدین نے کافی بحث و تمحیص کے بعد انصاف کے سارے تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے گاؤں کے صاف شفاف مکتب کی راہ دکھلا دی جس میں مدرسہ صفہ کی ساری خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں اور جس کے ذرے ذرے سے قناعت و کفایت کی مختلف شعاروں کی بو آتی تھی۔ کرسی کی جگہ کھاد کی بوریاں، میز کی جگہ گھٹنے کا کوہان، ٹفن کی جگہ پر مسیح الملک حکیم اجمل خان کا تجویز کردہ خالص صحت بخش طبی کھانا، ظہر تک کے ریاض مسلسل کی وجہ سے مستقبل کے مولی صاحب کو حاجت قیلولہ محسوس ہوئی حق ولایت زمیں پر ہی دراز ہو کر ادا کرنا چاہا جو ممتا کو دیکھا نہیں گیا جھٹ سے ایک بوریا بچھا دی گئی۔ اسی بستر پر کل کے علامہ احسان الٰہی ظہیر نے چند جھپکیاں لیں پھر تازہ دم ہو کر اس مکتب عشق کی طرف چل پڑا جس کے بارے میں کہا گیا ہے؎
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے
کانوننٹ کابچہ ان کے ارمانوں کا شہزادہ امیدوں کا شیش محل جس کے لیے اذیت مصیبت ملامت بلائیں کیا کچھ نہیں اٹاہئی تھیں ڈاکٹر انجینئر وغیرہ تو نہیں بن سکا ابتہ گاؤں کے ہم عمروں کے ساز میں اپنی بھی آواز ملاتا ہواوارد عروس البلاد ممبئی ہوگیا اور وقت نے اتنےزناٹے دارتھپڑ رسید کیے کہ ریشمی گال لال ہو گئے اوردوسرابچہ مکتب مدرسہ اور جامعات سے گزرتا ہوا ان وسعتوں اور بلندیوں تک پہنچا جہاں چشم حیرت کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے اور یہی بدھو میاں سعادت دارین کا اسلامک میڈیم ثابت ہوا۔ وفی ذالک فلیتنافس المتنافسون
ہم اپنے نونہالوں کی تقدیر اپنے قلم سے لکھنے کے لیے اس قدر بیتاب ہو تے ہیں کہ اپنی حیثیت عافیت اور عاقبت تک کو بھی گنوا بیٹھتے ہیں اور اس وقت سود وزیاں کا احساس ہو تاہے جب سب کچھ ملیا میٹ ہو چکا ہوتا ہے۔
انگلش میڈیم ، کانونٹ، مانٹیسری اور مشینری اسکولوں کا اپنا ایک متعارف کلچر ہے۔ اس کی جھلکیاں ترانے سے شروع ہو تی ہیں اور پورے سال بچوں کے دین عیدںے تہذیب اور افکار کو متاثر کرتی رہتی ہیں۔ ترانے سے پیشتر ہی کالج کامالک اپنے فکری مقاصد کا شیریں زہر معصوم بچوں کو مناسب مقدار میں بڑی ہنر مند ی کے ساتھ پلا دیتا ہے اور پھر سلیبس میں ایسے مضامین بھرے پڑے ہوتے ہیں جو غارت گر ایمان وعقیدہ ہوتے ہیں۔ پورے سال ہمارے نو نہالوں کو تسلسل کے ساتھ وہی زہر ہلاہل پلایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے اچھا خاصا صحت مند جسم ودماغ بھی پوری طرح زہر آلود ہو کر رہ جائے گا۔
ہندو فکر کے اسکول اپنے پرکھوں عید وں تیوہار وںرسم ورواج کی بھر پور نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مشینری کالج مسیحیت کی تبلیغ میں سر گرم ہوتے ہیں۔ نصاب ٹیچر ملازمین سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوتے ہیں۔ ان احوال و ظروف میں بھلا کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے پھول تر وتازہ رہ سکتے ہیں اور ہمارے لخت ہاے جگر اپنے قلب ونظر کی سادہ تختیوں کوباطل افکار کے گرد وغبار سے بچانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
درجہ پنجم تک ذہن سازیاں ہو تی ہیں آگے یہی بچے اوربچیاں بلوغت کی دہلیز کی طرف قدم بڑھانے لگتی ہیں۔ مخلوط تعلیم ایک نئی مصیبت بن کے سامنے آکھڑی ہو تی ہے۔ نظروں مسکراہٹوں کے تبادلے ہوتے رہتے ہوں گے عمر کے ساتھ جرأت وجسارت بھی بال وپر نکالنا شروع کر دیتی ہے۔ نتیجے کی طرف بشیر بدرکی نظر پہنچی ہے، کہتا ہے؎
اب پڑھائی لکھائی کا موسم کہاں
کتابوں میں خط آنے جانے لگے
اور ہم میں سے نہ جانے کتنے خوش نصیب ایسے بھی گارجین ہوں گے جو بعد میں نکاح وولیمے کے اخراجات سے بھی بچ کر مستحق ثواب دارین بن جائیں گے۔ان شاءاللہ
ان قتل گاہوں کےروایتی سالانہ جلسے بڑے کر وفر اور تزک واحتشام کے ساتھ منعقد ہوتے ہیں۔ تقریروں نظموں گیتوں فلمی نغموں اور لطیفوں سے سامعین وسامعات کی بھر پور ضیافتیں ہو تی ہیں پھر ڈراموں کاسلسلہ شروع ہو تاہے۔بالغ بچوں اور بچیوں کےٹھمکوں سے جیتو اور ویجنتی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ اس رقص و سرود پر والدین پھولے نہیں سماتے اور دل ہی دل میں کہتے ہیں۔ع
شادم از زندگی ما ک پیدا کر دم
ان اسکولوں کے سالانہ جلسوں میں وہ گل کھلتے ہیں کہ حیا اپنی آنکھیں بند کر لے اور شرافت کانوں میں انگلیاں ڈال کر منہ چھپا لے پر افسوس صد افسوس آہ آہ کی جگہ پر واہ واہ کی صدائے دلکش و جانفزا نکلتی ہے۔ اس روح افزا پروگرام میں ہمارے نور ہائے نظر بھی برابر کے شریک ہیں ان کے والدین نے بھی فیس کی ادائیگی میں بڑی فیاضی دکھائی ہے نیکی کے کام میں پیچھے رہنا بد بختی ہے۔
یہ ہے وہ ماحول جس کا انتخاب ہم اپنے معصوں کے لےھ کرتےہیں اور یہ ہے وہ کلچر جس کو آپ اپنے آبگینوں کے لیے پسند فرماتے ہیں؎
یوں قتل سے بچوں کے وہ بد نام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
ہمارا متاع دین ودنیا لٹ رہا ہے اور ہم خوش فہمی کی بہشت میں خوش وخرم ہیں۔ ہوش کے ناخن لوکہیں ہم احمقوں کی جنت کی سیر تو نہیں کر رہے ہیں۔
روسی ماؤں نے کمنزم کے یلغار سے اپنے آنگن کو مدرسہ بنا کرا پنی نسلوں کے دین وایمان کا تحفظ کیا تھا اور ہم بصد شوق وہزار رغبت اپنے بچوں کے دینی مستقبل کا سودا کر رہے ہیں اور حکومتوں پر الزام بھی لگا تے ہیں کہ ہمارے تشخصات وامتیازات کو مٹایا جا رہا ہے؎
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
میں خالص مکتب کی پیداوار ہوں۔ اپنی عمر بے سود کے کم وبیش بیس برس اساتذہ کو پٹی پڑھانے اور پینتالیس سال طلباء ہنر مند کے مستقبل کی تخریب میں صرف ہوگئے۔ ع
خوشست عمر دریغا کہ جاودانی نیست
اس آنکھ مچولی میں بہت کچھ کھویا اور وقت نے بہت کچھ واپس بھی کیا طرفہ عبد نے بجا فرمایا؎
ستبدی لک الایام ماکنت جاہلا
ویاتیک بالاخبار ما لم تزود
ہر کوئی اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں لکھتا اور بولتا ہےاسی لیے اختلافات کی پوری گنجائش ہوتی ہےاور تنقید وتبصرے کے دروازے کھلے ہو نے چاہئیں اورصبر و تحمل، فروتنی وانکسار کے ساتھ دوسروں کے آراء وافکار کا والہانہ استقبال ہونا چاہےں ۔حکماء کی زبان میں اسی کا دوسرا نام دانشمندی وخرد مندی ہے۔
اکثر نبضان آئین فطرت مکتب میں جاری نصاب پراز سر نو نظر ڈالنے کی وکالت کرتے ہیں۔ رائے تو مثبت اور ٹھوس ہےاور اس سے مفر نہیں اب سوال صرف اس بات کا ہے کہ یہ بیڑا کون اٹھائے۔ ظاہر ہے فرد کا تیار کردہ سلیبس متفق علیہ ہو نہیں سکتا اور ہم مسلمانوں کے یہاں کوئی مہیمن قوت نہیں جو سب کو ایک نصاب پر جمع کردے۔
ان حالات میں سب کی نگاہیں تنظیم کی طرف اٹھتی ہیں اور حقیقی معنوں میں یہ بڑا کام جماعت وجمعیت ہی کر سکتی ہے۔ میتھمیٹکس، سائنس اور انگلش کی لازمی شمولیت وقت کی آواز ہے۔ ماہرین حساب،سائنس اور انگریزی کی تلاش چکور ، پروانہ اور بھونرے کی طرح کرنا ہو گی ،چاند اپنی کائنات میں شمع اپنی روشنی میں اور پھول اپنی خوشبو میں سر مست ہیں ،ضرورت ہم کو ہے پیاسے ہم ہیں اس لیے آبلہ پائیوں کے لیے ہمیں تیار ہونا چاہےخ اور اس وسیع وعریض ہندوستان میں ہی بہتیرے تجربہ کار مخلصین مل سکتے ہیں جو لیلائے جماعت کے قدموں میں عمربھر کے تجربات کا ماحصل رکھنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ع
ڈھونڈ نے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
سونڈامنٹل جذبے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے اس کے لیے مضبوط قصد وارادہ کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ مجنؤں کی تو جان جائے گی اور ان کی صحرا نوردیاں دیوانہ پن بن کر رہ جائیں گی اور ایسا بہت دیکھا گیا ہے کہ سب کچھ تیار ہو جاتا ہے اور حکومتوں کی سفارشات کی طرح سرد خانے میں چلا جاتا ہے۔
نصاب میں تغیر و تبدل کی گنجائش ہمیشہ سے رہی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ نصاب کو وقت کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلنا چاہےج ورنہ وقت اسے لولا لنگڑا بناکر آگے نکل جائے گا اور نصاب مسکین و فقیر بن کر پدرم سلطان بود کی صدا لگاتا رہ جائے گا اور یہی ہمارے مکتبی نصاب کی سر گزشت ہے۔
مذکورہ بالا تینوں مضامین شامل نصاب ہوجائیں اس کے لیے اساتذہ کی ضرورت پڑے گی اس کے لیے مہنگے ٹرینڈ، اسی مضمون کے پوسٹ گریجویٹ اساتذہ کا تقرر ضروری ہوگا۔ مینیجر صاحبان مولوی کے بھاؤ پر ان اسامی کو بھی ڈھونڈیں گےتو سیپ تو اونے پونے مل جائے گی پر موتی خواب وخیال ہی رہ جائے گا۔ اب آپ کے سامنے فریب دہی کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا اور یہ پیرنٹس کے ساتھ صریح خیانت ہوگی۔
آپ کا اسکول کمرشیل ہے اور میں تجارتی درسگاہوں کا مخالف نہیں، کوئی یہ کام ڈنکے کی چوٹ پر کرتا ہے وہ کم از کم منافق نہیں اور جو مجانیت کا دم بھرتے ہیں اور
چوں بخلوت می روند آن کار دیگر می کنند
وہ غاشی کے علاوہ چور بھی ہیں۔ بہر حال پونجی صرف بلڈنگ پر ہر گز نہ لگا ئیں بلکہ ایک مناسب مقدار اساتذہ پر بھی صرف فرمائیں اور ٹاٹا کے اصول پر عمل کرتے ہوئے فیس کے تین حصے اساتذہ اور ملازمین پر خرچ کرکے بچوں کا مستقبل اور اپنی آخرت تعمیر فرمالیں فیس والے اسکولوں کے لیے یہ عمل بڑا آسان ہے۔
رہے وہ مکاتب جو صدقات و خیرات سے چلتے ہیں ان میں کٹیگرائزیشن از بس ضروری ہےخوشحا ل بچوں پر لازمی طور پر فیس لگائی جائے اور آمد کو غریب بچوں پر اچھے اساتذہ کو مناسب تنخواہیں دے کر صرف کیا جائے:توخذ من اغنیاء ھم وترد علی فقراء ھم پر عمل درآمد ہو جائے گا ۔ان شاءاللہ
اسکول انتہائی نفع بخش کسب معاش کا باعزت ذریعہ ہے، تعلیم چھوٹے بڑے، امیر و غریب سب کی ایسی ضرورت ہے جس کے بغیر آج کی اس دنیا میں انسان کی زندگی جینا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، اب لوگ ’سکچھا‘ کو پانی، دوا اور ہوا کی طرح ذریعہ حیات تسلیم کر تے ہیں؛ اس لیے تعلیم کا نرخ کتنا ہی بالا ہوجائے بہرحال حاصل کی جائے گی، علم کی زلف کے سب اسیر ہیں اور رہنا بھی چاہیے، اسکول شاپنگ سینٹر کی طرح ہیں؛ جس کے یہاں جتنی صفائی ستھرائی، رکھ رکھاؤ، ٹیپ ٹاپ ہو گا اس کی طرف اتنا ہی لوگ آکرشت ہوں گے اور ڈیمانڈ کا گراف بڑھے گا، اب اسکول مینجمنٹ کی مرضی ہےکہ چاہیں ہرن کی چھال پر گدہے کا گوشت بیچیں یا پھر آئین فطرت کی پاسداری کرتے ہوئے آب وہوا کی طرح اس کو سستی اور سہل الحصول رکھ کر دوسروں کے بھی جینے کی راہ کو آسان کرنے میں مدد کریں، یہ وہی کر سکتے ہیں جن کے سینوں میں حساس دل اور دل میں انسانیت کا درد ہو، جنیںد اپنے پیٹ کے ساتھ نسل جدید کی تعمیر نو کی فکر ہو، جو ملت کے فوزو فلاح میں اپنی کامرانی محسوس کرتے ہوں، خیر الناس من ینفع الناس۔
مشکل یہ ہے کہ ہم بھی اسٹینڈرڈ کی تعیین، کروفر دیکھ کر کرتے ہیں، جبکہ برتن ہی سب کچھ نہیں ما فی الظروف پر بھی نظر ہو نی چاہیے۔
آج کل مشینری اسکولوں اور ششو مندروں میں منٹیننس اور چمک دمک پر ضرورت سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور شاید اسی لیے لوگ کشاں کشاں ان اسکولوں کی طرف چلے جا رہے ہیں، بہتر تعلیم بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے، پر مسموم کلچراورزہر آلود نصاب پر بھی کم از کم ہماری برادری کی نظر ہونی چاہیے، بچوں کا دین وعقیدہ ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
روایتی مکاتب واقعی اپنی معنویت اور افادیت کھو چکے ہیں، بھڑکنے کی ضرورت نہیں، اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں، اس کے پورے اسٹریکچر کو بدلنا وقت کی اہم ضرورت ہے، اور اس سے ہماری مسلسل چشم پوشیوں نے بالآخر ہمیں یہاں تک پہنچا دیا ہے، اب بھی خواب نوشین سے اگر ہم بیدار نہیں ہوئے توآنے والی نسلیں ہماری اس مجرمانہ غفلت کو کبھی معاف نہیں کریں گی،گرد وپیش کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو ہمیں سمجھنا ہو گا، فکر ونظر میں تبدیلیاں لانی ہوں گی، منصفانہ تجزیے کے ذریعہ موانع اور رکاوٹوں کو ختم کرنا پڑے گا، اور ملت کے حساس وسنجیدہ کرم فرماؤں نے اس مبارک عمل کی شروعات کر دی ہے، مکتبوں کی تجدید کاری تیزی کے ساتھ ہو رہی ہےنام سے کچھ فرق نہیں پڑتا روح تعلیم پر نظر ہونی چاہیے۔ میں ان سعادت مندوں کو سلام کرتاہوں جنھوں نے ساحل ہی سے آنے والے طوفان کا صحیح اندازہ لگاکر اپنی کشتی کو ڈوبنے سے بچا لیا ان کے یہاں دین ودنیا ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ایک ساتھ محو سفر ہیں، والفضل للمتقدم۔
وقت کا تیور حالات کی نزاکت کو سمجھنا فراست کہلاتا ہے اورمومن اس کے پیج وخم کو خوب جانتا ہےاور جو لوگ شتر مرغ کی طرح اپنا اور اپنے اقدار کا تحفظ کرتے ہیں وہ صیادان صد رنگ کے جال سے نہیں بچ سکتے؎
آنچہ دانا کند کند ناداں
لیکن بعد از خرابی بسیار
ان ماڈرن اسکولوں میں بچوں کو ڈالنا جہاں قرآن مجید ناظرہ، دینیات اورضروری دعاؤں کے حفظ کا معقول بندوبست ہو مکتب کی دہائی دے کر ان کی مخالفت کی کوئی معقول وجہ نہیں ہو سکتی، یہی تو ویل اپٹوڈیٹ مکاتبِ ہیں اور تمام روایتی مکتبوں میں اس طرح کی واضح تبدیلیوں کی ضرورت ہے، البتہ ان اسکولوں میں فیس کے حوالے سے درجہ بندی از بس ضروری ہے تاکہ غریب بچوں کی رسائی آسان ہو بلکہ نادار بچوں کاایک کوٹہ فکس ہونا چاہیے، تفتیش کے بعد تمام سہولیات کے ساتھ ان کے داخلے ہوں اور فیس میں بھی توازن ضروری ہے؛ نہ اتنا زیادہ کہ ادائیگی مشکل ہو جائے، اور نہ اتنا کم کہ جماگی بن جائے۔ آخر اساتذہ کو اچھی تنخواہ بھی تو دینی ہےاور مینیجر صاحب کو ہفتے میں دوبار گوشت بھی کھانا ہے اسکول منٹیننس کے خرچے بھی آپ کی جیب سے ہی پورے ہونے ہیں۔
پورے ملک میں نام نہاد انگلش میڈیم اسکولوں کی بھر مار ہے، ہزاروں کی تعداد میں ایسے اسکول بھی ہوں گےجن کے مینیجرصاحبان کو یہ بھی پتہ نہیں کہ اس میڈیم کا مفہوم کیا ہے؟ اور اگر میں بتاؤں تو حضور عالی وقار کی جبین فضیلت پرنہ جانے کتنی شکنیں نمودار ہو جائیں گی، اور ڈر ہے کہ ہتک عزت کا مقدمہ نہ دائر فرما دیا جائے، گستاخی کے لےے صد بار معذرت کے بعد عرض ہے کہ انگلش میڈیم کا مطلب بزعم خویش یہ ہے کہ انگلش،سائنس،میتھمیٹکس وغیرہ وغیرہ سارے کے سارے مضامین صرف اور صرف انگلش ہی زبان میں پڑھائے جائیں، یہاں تک کہ ایپل کا معنی سیب بتانا ممنوع مانا جاتا ہے، اب آپ ہی انصاف فرمائیں کہ جن اسکولوں میں انگلش کی ٹیسٹ بک ٹھیٹھ بھوج پور ی زبان میں پڑھائی جاتی ہو تو کیاماسٹر صاحب کے سوٹ بوٹ اور خضاب آلود مونچھوں کی وجہ سے وہ انگلش میڈیم بن جائے گا! اور جب اس مضمون کا یہ حال ہو تو دوسرے مضامین کی کیا درگت بنائی جاتی ہو گی بہ آسانی انداز ہ لگایا جا سکتا ہے، اور شمالی ہندوستان میں انگلش کا یہ حشر بالکل طبعی ہے، بندھیاچل کی پہاڑیوں کے اس طرف کے بچوں کو سیب کو سیب کہنے سے کوئی روک نہیں سکتا اور اپپل کہنے سے اس میں مزید مٹھاس تھوڑی نہ آجائے گی؟!
با ادب با ملاحظہ عرض ہے کہ آپ گرامی قدروں کو کھلی آزادی ہے الف لام لگا کر کسی بھی نام سے اسکول لانچ فرمائیں دھڑلے سے سارے مضامین اردو ترجموں کے ساتھ پڑھائیں اور معترضین کو مہر بلب جواب دینے کی سکت پیدا کریں اور یاد رکھیں کہ لمبی فیس کے بڑے اسکولوں میں بھی فقط بورڈ میڈیم کا ہے اڑھائی پڑھائی خالص ہندی زبان ہی میں ہوتی ہے، ہماری برادری نہ جانے کیوں عوام سے ڈرتی ہے، ہم تو بنام اللہ نہ جانے کیا کیا کر لیتے ہیں۔
سنا ہے کہ ہماری مادری زبان اردو ہے اب اگر کوئی ہمارے نو نہالوں کو انگریزی میں پڑھاتا ہے اور علی الاعلان اپنی فیکٹری کوانگلش فیکٹری کہتا پھرتا ہے تو اس کے لیے مناسب جگہ منٹل ہاسپیٹل ہے میں گمنام بےبضاعت میاں صاحب قسم کا آدمی ہوں، میری آپ کہاں سنتے ہیں اور کیوں سنیں؟ پر کرنل محمد خان کی تو سننی پڑے گی وہ جو فوجی ٹہرے، آپ اپنی مشہور زمانہ کتاب ’بزم آرائیاں‘میں لکھتے ہیں:
حضرات!ہمیں انگریزی کو میڈیم کے طورپر استعمال کرنے کا شوق نہیں، روگ ہے، اوریہ انگریزکا قصور نہیں بلکہ انگریز تو خود حیرت میں ہے چند سال ہوئے انگلستان کے ایک مشہور ماہر تعلیم یہاں آئے، ہم انھیں ایک انگلش میڈیم اسکول دکھا چکے تو کسی قدر فخر کے ساتھ ان کی راے پوچھی، ان کی راے سننے کے قابل ہے، کہنے لگے :’’بھئ آپ کی ہمت قابل داد ہے جو اپنے بچوں کو ایک غیر زبان کے ذریعے تعلیم دے رہے ہو، اگر میں انگلستان میں انگریز بچوں کواردو کے ذریعے تعلیم دینے کی سفارش کروں تو مجھے یقیناً اگلی رات کسی دماغی ہسپتال میں کاٹنی پڑے گی، آپ واقعی بہادر قوم ہیں خدا جانے اس انگریز کے ذہن میں کون سا لفظ تھا جس کی جگہ بہادر استعمال کر رہا تھا۔‘‘
ہمارے اسکولوں میں ہمارے بچوں کی تعلیم اردو کے بجائے انگریزی زبان میں ہو یہ واقعی پاگل پن ہے اور ہم بلا شبہ دیوانگی کی اس راہ بھڑیا دھسان وارفتگی کے ساتھ چلے جارہے ہیں، اور اگر کوئی روکتا ہے تو الٹے اسی کو مجنوں کے خطاب سے سر فراز کردیا جاتا ہے ؎
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
ارشادالحق روشاد

مضمون ذرا طویل ہے۔ مگر ہے لائق مطالعہ ۔
اللہ شیخ کے علم و فضل میں برکت عطا فرمائے