مدارس اسلامیہ اور جدید ٹکنالوجی کا استعمال: امکانات وتوقعات

طارق اسعد عصری علوم

اکیسویں صدی اپنے جلو میں ایسی حیرت انگیز ایجادات لیے نمودار ہوئی جس نے روئے زمین کا ضابطہ حیات ہی بدل دیا، ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں پایہ تکمیل کو پہنچنے والے امور سکنڈوں اور منٹوں میں ہونے لگے، دنیا سمٹ سمٹا کر مٹھی میں بند ہو گئی، ایک شہر سے دوسرے شہر اور دوسرے ملک میں پیغام رسانی کے لیے جہاں مہینے لگ جاتے تھے وہیں ہاتھ کی ایک جنبش سے ایک سکنڈ سے کم وقفے میں بھی وہی پیغام دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتا ہے۔انٹرنیٹ کی آمد اور اس تک آسان رسائی نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں بے انتہا سہولتیں اور آسانیاں مہیا کر دی ہیں۔خاص کر گزشتہ دو دہائیوں میں ٹکنالوجی اور جدید آلات میں جو برق رفتار ترقی ہوئی ہے اور جس طرح سے نئے نئے ڈیوائیس وجود پذیر ہوئے ہیں ان سے انسانی زندگی میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔

ٹکنالوجی کے اس دور میں ہر فرد خواہ امیر ہو غریب، جاہل ہو یا عالم، بچہ ہو یاجوان یا بزرگ، مرد ہو یاعورت غرضیکہ ہر کوئی اس کا حصہ بنا ہوا ہے اور کسی نہ کسی طرح اس سے استفادہ کر رہا ہے۔جدید آلات سے کسی کو مفر نہیں اور ان سے دامن بچانا کوئی دانشمندی بھی نہیں کہ ایک زمانہ اس سے مستفید ہو رہا ہو اور کسی معقول یا جائز سبب کے بغیر اس سے بے اعتنائی برتنا درست نہیں۔

مدارس اسلامیہ پر عموما یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یہاں پر جدت پسندی اورتبدیلی کواچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، اصلاح کی کوششوں کو بلا سبب ردکر دیاجاتا ہے، ہر نئی چیز کو کڑی تنقیدی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور بالعموم تجدید واحیا کی تحریکوں سے تجاہل عارفانہ برتا جاتا ہے۔مگر یہ حقیقت ہے کہ بہت سارے مدارس نے اصلاح کی مثبت کوششوں کا تہہ دل سے خیر مقدم کیا ہے اور درست رائے اور مبنی بر اخلاص مشوروں کوعملی جامہ بھی پہنایا ہے، نیزعصر حاضر کے تقاضوں کی روشنی میں نظام تعلیم، نصاب تعلیم، رہن سہن، وغیرہ میں انقلابی تبدیلیاں بھی کی ہیں تاکہ مدارس بھی زمانے کے شانہ بشانہ چلیں اوردینی تعلیم اور عصری امور کی رعایت کرتے ہوئے پیش آمدہ مسائل کا تحلیل وتجزیہ کریں۔

کرونا اور لاک ڈاؤن کے سبب تعلیمی وتدریسی نظام میں انقلابی تبدیلی رونما ہوئیں، پہلی مرتبہ پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں اتنے بڑے پیمانے پر آن لائن تعلیم وتدریس کا سلسلہ شروع ہوا جو کچھ تلخ وشیریں تجربات کے ساتھ ابھی بھی جاری وساری ہے، بہت سارے مدارس نے آن لاین تعلیم کا سلسلہ شروع کیا مگر چوں کہ اس کے لیے اساتذہ کی خاص ٹریننگ کی ضرورت تھی نیز دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سست رفتاری کے مسائل کے باوجود بھی یہ تجربہ کسی حد تک کامیاب رہا تاہم اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے اور بہت سارے طلبہ کما حقہ اس سے استفادہ نہیں کر سکے، مدارس کو چاہیے کہ اس پہلو پر از سر نو غور کریں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ کہاں پر خلل ہے؟

ایک سروے (جو ضلع مؤ کے ثانوی سطح کے اسکول ومدارس میں کیا گیا)کے مطابق 86 فیصد اساتذہ مدارس آن لائن ایجوکیشن فراہم کرنے میں آن لائن سسٹم کو استعمال کرنے کے لیے مہارت کی کمی کی وجہ سے رکاوٹوں کا سامنا کرتے ہیں،79 فی صد معلمین تکنیکی آلات سے ناواقف ہیں، 77 فی صد اساتذہ کے پاس ادارے کی طرف سے ہدایات کی کمی کی وجہ سے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، 86 فی صد اساتذہ مدارس کو درس گاہ میں معاشرتی تعامل کے فقدان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ (Barriers on Providing Online Eduction by Madrasa and School Teachers, by Shahbaz Ahamd 57, 58)

یہ بھی واضح رہے کہ آن لاین تعلیم کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دروس ریکارڈ کر کے بھیج دیے جائیں یا ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیے جائیں اور طلبہ انھیں ڈاونلوڈ کر کے سن لیں، بلکہ آن لائن تعلیم میں لائیو ٹیلی کاسٹ کا بطور خاص اہتمام ہونا چاہیے بایں طور کہ استاد درس دے اور تمام طلبہ براہ راست اس لیکچر کو سنیں، جو سوالات ان کے ذہن میں ہوں وہ پوچھیں اور استاد ڈائرکٹ سوالوں کا جواب دے، یعنی کہ بالکل ویسی ہی فضا ہو جیسے درس گاہ میں بالمشافہ تدریس کا ماحول ہوتا ہے، آن لاین کلاسیز کے لیے بہت سارے فری ایپ بھی دستیاب ہیں،علاوہ ازیں ایک مخصوص قیمت دے کر پیڈ ایپ بھی خریدے جاسکتے ہیں۔ میرے خیال سے آن لائن تعلیم کا یہی درست طریقہ ہے،ہندوستان کی بہت ساری یونیورسیٹیاں اسی طریق پر کاربند رہی ہیں، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کا طرز تدریس یہی رہا ہے۔مدارس کھلنے کے بعد اگر چہ آن لائن تعلیم کا سلسلہ موقوف ہو چکا ہے لیکن اگر ارباب مدارس چاہیں تو اس پلیٹ فارم سے استفادہ کا سلسلہ منقطع نہیں ہوگا، ملک اور بیرون ملک سے علما، دعاۃ، ماہرین تعلیم اور دیگر جامعات کے قابل اساتذہ کے آن لائن دروس ولیکچرزکے ذریعہ طلبہ واساتذہ کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔

کرونا اور لاک ڈاون سے قبل مدارس میں طلبہ کے لیے موبائل فون کا استعمال ممنوع تھا اور بڑی سختی سے اس پر عمل درآمد بھی ہوتا تھا، نہیں معلوم کہ مابعد کرونا مدارس میں یہ پابندی برقرار ہے یا نہیں، اگر ابھی بھی طلبہ کے لیے اسمارٹ فون کی اجازت ہے تو انتظامیہ کو اس تعلق سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے، عموما یہ دیکھا جاتا ہے کہ عوام بالعموم اور طلبہ بالخصوص اسمارٹ فون کے استعمال میں بے حد لاپرواہ ہوتے ہیں، گھنٹوں سوشل میڈیا پر مغز ماری کرتے ہیں، فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب، واٹس ایپ، سنیپ چیٹ، ٹیلی گرام سمیت متعدد ایپ پر اپنا قیمتی وقت بے دریغ برباد کرتے ہیں اور فضول اور لایعنی کنٹینٹ (مواد) کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں وقت گذاری کے لیے مختلف گیم کا بھی سہارا لیتے ہیں۔

حالاں کہ اگر دیکھا جائے تو اسی اسمارٹ فون کے مثبت استعمال کے بیسیوں ذرائع موجود ہیں بلکہ اس وقت پوری دنیا الیکٹرانک ڈیوائیس کو اپنے تعلیمی اور تدریسی امور کے لیے استعمال کررہی ہے اور اس سے خوب خوب استفادہ کررہی ہے، عربی،انگریزی، اردو، ہندی سمیت دنیا کی تمام زبانوں میں بے تحاشہ مواد موجود ہیں، ای بک، ڈیجیٹل لائبریری، پی ڈی ایف، ورڈ، صوتی کتب، آن لائن دروس ولیکچرز،تعلیم وتدریس کے حوالے سے لاکھوں ویب سائٹ، غرض یہ کہ معلومات کا ایک بحربے کراں ہے جو انٹرنیٹ پر سیلاب کی صورت میں امڈا پڑا ہوا ہے، مگر افسوس کا مقام ہے کہ طلبہ مدارس بلکہ مسلم نوجوان اس سیلاب سے اپنے دامن کو بچاتے ہوئے خشکی کی طرف پناہ لیتے ہیں، اللہ کی اس عظیم الشان نعمت سے استفادہ کے بجائے لایعنی بلکہ فحش امور کے مشاہدے میں وقت برباد کرتے ہیں۔

مدارس اسلامیہ کو جدید آلات سے استفادہ کی سمت میں پیش قدمی کرنی ہوگی اور ماڈرن ٹکنالوجی سے مسلح ہوکر زمانے کے قدم سے قدم ملا کر چلنا ہو گا، اس کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہو اسے مہیا کرنا ارباب مدارس کی ذمہ داری بنتی ہے، لیپ ٹاپ، پروجیکٹر، کمپیوٹر، ڈیجیٹل لائبریری سمیت بہتیرے آلات سے مدرسہ کو مزین کرنا اور طالبان علوم نبوت کے لیے ان سے استفاہ آسان کرنا وقت کی ایک ضرورت ہے۔

شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ ”برصغیر میں عربی زبان اور ادب کی تعلیم“ کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

”ہر زبان کی تعلیم کے لیے اہل زبان کی گفتگو اور لب ولہجہ کی سیکڑوں کیسٹ اور متحرک تصویروں پر مشتمل ریلیں تیار کی گئیں جن سے دنیا بھر میں استفادہ کیا جارہا ہے، اس طرح کسی بھی دوسری زبان کی تعلیم اب سالوں کے بجائے مہینوں میں ہونے لگی ہے۔ افسوس کہ عربی زبان کے سلسلے میں ہمارے مدارس والوں کو ان سے فائدہ اٹھانے کا کبھی خیال نہیں پیدا ہوا….. حقیقت یہ ہے کہ اب تک سنجیدگی کے ساتھ جدید آلات وذرائع سے استفادے کے متعلق سوچا بھی نہیں گیا اور نہ ہی کبھی ان کی ضرورت محسوس کی گئی….اس صورتحال پر جہاں تک غور کیا جائے مسئلے کا حل سوائے اس کے کچھ نظر نہیں آتا کہ جدید آلات وذرائع سے استفادہ کیا جائے تاکہ طلبہ کو زبان سیکھنے میں جو دشواریاں پیش آئی ہیں وہ یکسر ختم ہوجائیں۔“ (مقالات عزیر شمس، مرتبہ حافظ شاہد رفیق،ص:۱۱۳۔۱۱۴)

شیخ عزیر شمس حفظہ اللہ کا یہ مضمون سن1984کا تحریر شدہ ہے، 36 سال قبل موصوف نے اس جانب توجہ دلائی تھی حالانکہ اس وقت ابھی جدید ٹکنالوجی کی وہ بہتات نہیں تھی جو اکیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائی میں ہے، پورا منظرنامہ اب تبدیل ہو چکا ہے بلکہ بہت ساری ٹکنالوجی آوٹ ڈیٹیڈ ہو چکی ہیں اور ان کی جگہ پر ان سے زیادہ برق رفتار، سہل الاستعمال آلات ظہور پذیر ہوئے ہیں، ان کا مثبت استعمال اور کماحقہ استفادہ مدارس کے بہترین مستقبل کی ضمانت ہے۔

یہ مضمون مولانا ابوالکلام آزاد کے درج ذیل اقتباس پر ختم کیا جاتا ہے:

”….کوئی تعلیم کامیاب نہیں ہو سکتی اگر وہ وقت اور زندگی کی چال کے ساتھ نہ ہو، جو تعلیم ہو وہ ایسی ہونی چاہیے کہ زمانے کی جو چال ہے وہ اس کے ساتھ جڑ سکتی ہو، اگر آپ دونوں ٹکڑوں کو الگ الگ رکھیں گے تو وہ تعلیم کامیاب نہیں ہو سکتی۔“ (مولانا آزاد کا ذہنی سفر، از ظ انصاری،ص۴۴)

آپ کے تبصرے

3000