جہاں تک دیکھتا ہوں دل کی ویرانی نہیں جاتی

سلمان ملک فائز بلرامپوری شعروسخن

مری چشمِ تمنا کی پریشانی نہیں جاتی

جہاں تک دیکھتا ہوں دل کی ویرانی نہیں جاتی


بہت پہلے کہیں اے زندگی شاید ملے تھے ہم

تری صورت مگر آنکھوں سے پہچانی نہیں جاتی


لٹی جاتی ہے آنکھوں کی بصیرت اور بصارت بھی

مگر دل سے مرے وہ جلوہ سامانی نہیں جاتی


تعلق کچھ تو ہے اب تک مرا اللہ والوں سے

کہ ہاتھوں سے متاعِ نوعِ انسانی نہیں جاتی


مسلسل رنگ ہائے حسنِ نوخیزاں کی برکت سے

جنابِ شیخ کے چہرے سے نوارانی نہیں جاتی


یہ قصہ سنتے آئے ہیں شہیدانِ محبت سے

کہ رزم عشق ٹھن جاتی ہے خود ٹھانی نہیں جاتی


لٹا بیٹھا ہوں اپنی طاقتِ گفتار سے سب کچھ

زبانِ تند کی لیکن گل افشانی نہیں جاتی


کہاں پہنچا دیا ہے ہجرتِ افلاس نے ہم کو

درو دیوارِ محفل جانی پہچانی نہیں جاتی


جنوں والے! گریباں چاک کرنے سے بھی کیا حاصل

جو اُس نامہرباں کی تنگ دامانی نہیں جاتی


چلو اچھا ہوا ترکِ تعلق کرلیا تم نے

وگرنہ میرے دل سے یہ پشیمانی نہیں جاتی


یہ کس مہتاب رو کی حسن آرائی کے جلووں سے

رخِ مہر و مہ و انجم کی تابانی نہیں جاتی


کہاں تک اب دلِ مضطر کو محرومِ وفا رکھیں

یہ نادانی تو ہے لیکن یہ نادانی نہیں جاتی


قمیصِ غیرتِ دل چاک ہے ہر ایک جانب سے

یہ وہ یوسف ہیں جن کی پاکدامانی نہیں جاتی


سرِ محفل غزل پڑھ کر چلا جاتا ہے وہ لیکن

دماغ و دل سے تاثیر غزل خوانی نہیں جاتی


اسی خاطر لیے جاتا ہوں لطفِ درد وغم فائز

محبت میں غمِ دل کی فراوانی نہیں جاتی

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
مبارك حسين

بہت زبردست میرے بھائ ۔
اللہ کرے زور بیاں اور زیادہ !!