استاذِ گرامی مولانا عبدالمبین منظرؔ بستوی رحمہ اللہ (۱۹۲۰-۱۹۸۹ء)

صلاح الدین مقبول احمد مدنی شعروسخن

یہ خطہ علم میں تھا خطۂ ویرانہ و صحرا

بنایا پھر اسی دیہات میں ملت کا ’’الحمرا‘‘

اسی کے سر بندھا پھر علم و فضل فقہ کا سہرا

ہوا قائم جو یہ ’’شمس العلومِ موضعِ سمرا‘‘


ہے باقی اس کی عظمت اور وقعت کتنے سینوں میں

مشاہیر جماعت بھی ہیں اس کے خوشہ چینوں میں


مسلّم علم و بحث و فن میں تھی منظرؔ کی حیثیّت

رہی تدریس میں، تالیف میں اعلی صلاحیّت

تھی ان کی زد میں اسلامی جماعت اور دہریّت

یہ حنفیت، بریلویت بھی اور یہ دیوبندیت


ہوئے ہیں ماند جو ان کے مقابل میں مکابر تھے

وہ دورِ واپسیں میں صفِّ اول کے مناظرؔ تھے


ملا تھا ان کو رب سے فکر و فن کا ایسا سرمایہ

سخن ور تھے وہ پُرگو اور بڑے شعراء کے ہم سایہ

کوئی نقد و نظر، حاضر جوابی میں نہ ہم پایہ

یہی ہوتی ہے بندوں کے لیے دولت گراں مایہ


مدلّل ہوتی تھی جلسوں میں جو تقریر ہوتی تھی

بہت پرکیف بھی اور قابلِ تحریر ہوتی تھی


وہ طرزِ غور وفکر و فن میں یکتا اور مثالی تھے

سیاست میں، قیادت میں قرینِ ذوقِ عالی تھے

وہ ساری عمر ہی بس اپنی جمعیت کے مالی تھے

مجالس میں مناظر تھے جوابی تھے سوالی تھے


دفاعِ حق کی فدویت میں وہ سینہ سپر ہوتے

وہ سلفیّت کی دعوت میں اِدھر ہوتے اُدھر ہوتے


ملا اہلِ حدیثانِ وطن کو ہم خیالوں سے

وہ عزم و حوصلہ دعوت کا، مصلحؔ ان جیالوں سے

تعلق اپنی جمعیت کا تھا اللہ والوں سے

ترستے ہیں اسی منظر کو ہم اب کتنے سالوں سے


کرے جو دور جمعیت کے احوال پراگندہ

نظر میں ہے نہیں اس وقت ان جیسا کوئی بندہ

مصلحؔ نوشہروی (۱۳؍۱۱؍۲۰۱۵ء، نئی دہلی)

آپ کے تبصرے

3000