رفیقِ گرامی محمد عزیر شمس رحمہ اللہ کی یاد میں (۱۹۵۷-۲۰۲۲ء)

صلاح الدین مقبول احمد مدنی شعروسخن

مہدِ علم دیں میں گزرا عہدِ طفلی اور شباب

تھا قلم سرمایہ اُس کا، زندگی اُس کی کتاب

اُس کا شوق و ذوق و جذبہ بے مثال و بے حساب

وہ سماے علم و فن کا آفتاب و ماہ تاب


روز مرّہ کے بھی جب حالات میں گرہن رہا

آفتابِ علم و فن اس وقت بھی روشن رہا


وہ جہاں پہنچا وہیں اس کی پذیرائی رہی

علم و دانش اور ظرافت بزم آرائی رہی

لطف و لین و ترشی و تیزی میں رعنائی رہی

اختلاف رائے میں یاروں کی یارائی رہی


باپ کی مانند بیٹے کو جلال آتا رہا

جو نہ جانے، اس کے دل میں اک سوال آتا رہا


ہم بنارسؔ سے مدینہؔ کو چلے آشفتہ سر

ہم نوالہ، ہم پیالہ، ہم نوا و ہم سفر

اپنے گو حالات بھی ہوتے رہے زیر و زبر

پر کبھی آیا نہیں یارائی پر کوئی اثر


جو کبھی خاموش نہ ہوتا تھا اب خاموش ہے

کس قدر بے درد و بے جا موت کی آغوش ہے


تھا قرینِ ماہ و پرویں اُس کا علمی حوصلہ

تھا جواں پیرانہ سالی میں بھی اُس کا ولولہ

عیش و عشرت اور آسائش نہ تھا کچھ مسئلہ

بحث و تحقیق و نظر تھا اُس کا اصلی مشغلہ


وہ مسافر اپنی منزل میں نہ درماندہ ہوا

جب کبھی اپنے سفر پہ دل سے آمادہ ہوا


گوناگوں پوشیدہ شہ پارے تھے محفوظات میں

کیا تعجب خیز رنگینی تھی معلومات میں

فقہ و تاریخ و ادب میں اور ’’مخطوطات‘‘ میں

خوبیاں کتنی سمٹ آتی تھیں اُس کی ذات میں


’’موتِ عالِم موتِ عالَم‘‘ ذہن میں تازہ ہوا

اس حقیقت کا ترے جانے سے اندازہ ہوا


منہج ’’بوزید‘‘ میں پنہاں ہے شانِ امتیاز

ابنِ یحییٰؔ، ابنِ قیمؔ، ابنِ تیمیّہؔ کا راز

ان کی ’’تحقیقات‘‘ میں ہیں ان کی تحریروں کا ساز

ہے اسی شہ کار سے وہ سربلند و سرفراز


یہ حیاتِ بے وفا تو ایک رُستاخیز ہے

کارِ علمی ہی ترقی کے لیے مہمیز ہے


اصل میں اُس کا تخصص ایسا آفاقی رہا

فنّ ’’مخطوطات‘‘ میں وہ نازِ مشاقی رہا

چل بسا، جیسے نہ اب کوئی عمل باقی رہا

بزمِ یاراں میں نہ اب ایسا کوئی ساقی رہا


’’جان کر منجملۂ اَرباب میخانہ تجھے

مدّتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے‘‘


’’مکتبہ‘‘ تھا موت اُس کی، مکتبہ اُس کی حیات

مکتبہ ہی بس رہا ہے اُس کی پوری کائنات

دور تھے اُس سے ہمیشہ دَہر کے لات و منات

پیکرِ علم و ہنر اور پیکر صبر و ثبات


قابلیّت اُس کی جو تھی اُس کی آزادی میں تھی

یہ صفت اُس کی ہمیشہ سے غم و شادی میں تھی


وہ محققؔ وہ مؤرخؔ وہ ادیبؔ بے مثال

جس کا ہر اِک کار ہو شہ کار، ہیں وہ خال خال

حادثہ جاں کاہ ہے جس کی تلافی ہے محال

ہے رخِ زیبائے بحث و علم پر گردِ ملال


اب کہاں پائیں گے علم و فن کے متوالے اُسے

وادیِ أم القری میں ڈھونڈھنے والے اُسے


قبلہؔ و کعبہؔ، حرمؔ، یعنی مقامِ حق پناہ

نیک بختانِ جہاں کے دل کی وہ آماج گاہ

یکساں ہوتے ہیں وہاں پر سب فقیر و بادشاہ

’’مرقدِ معلا‘‘ نکوکاروں کی وہ آرام گاہ


مدتوں سے جاگتا تھا سرزمینِ پاک میں

اور اب سویا ہوا بھی ہے اسی کی خاک میں


کون اب پورا کرے گا اُس کے علمی خواب کو

بحث کو، تحقیق کو، اخلاق کو، آداب کو

ہے ضرورت جیسے پانی ماہیِ بے آب کو

اب کہاں پائیں گے، مصلحؔ! گوہرِ نایاب کو


لحد پر یارب تو اُس کی رحمت افشانی کرے!

جنت الفردوس میں تو اُس کی مہمانی کرے!

صلاح الدین مقبول احمد مصلحؔ نوشہروی
۱۹/۱۰/۲۰۲۲ء نئی دہلی

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالرحیم امینی

برادر معظم شیخ صلاح الدین مقبول حفظہ اللہ کا مرثیہ فقید الاسلام شیخ عزیر شمس رح کے حوالے سے درد میں ڈوبا ہوا وہ سوانحی خاکہ ہے جسکا ہر بند رحیل مرحوم کی کتاب حیات کاایک عنوان بن سکتاہے ہر بند کسک لے ہوۓ ہےاور پڑھنے سے ایک طرح سے ہوک اٹھتی ہے آگے جب اس خلد آشیاں علم کے بطل جلیل کی سوانح مرتب ہو گی برادرم مصلح نو شہروی کے سسکتے مرثیے کاایک ایک شعر شمسی زندگی کا موضوع قرار پائے گا آمرواقعہ تو یہ ہے آپ دونوں ہستیوں کی مرتبہ ومقام ہم معاصرین کی نظر میں شیخین… Read more »