مرے پہلو میں ہے اک دیوداسی
نہ جانے روح کیوں رہتی ہے پیاسی
میسر ہے ہر اک سامانِ عشرت
مگر جاتی نہیں سالی اداسی
خزاں کی آندھیوں سا اس کا لہجہ
گزرتی ہے تو لگتی ہے صبا سی
مرے ہر لفظ میں صدق و محبت
مگر اس کا ہر اک جملہ سیاسی
محبت کو مصیبت پڑھ گئی وہ
اٹھارہ کو لکھا اس نے اِکاسی
جہاں مجنوں نے کی صحرا نوردی
میں کاشف ہوں اسی دنیا کا باسی
آپ کے تبصرے