انڈیا کافی ہاؤس جس کی بنیاد انگریزوں کی ناانصافیوں کے خلاف رکھی گئی تھی، آج اپنی زبوں حالی کی داستان خود بیان کر رہا ہے۔ ہندوستان میں آزادی کی جدوجہد کے دوران جس طرح انگریزی کپڑوں کے بر خلاف کھادی آشرم، انگریزوں کے ذریعے قائم کردہ تعلیمی اداروں کے برخلاف ودیاپیٹھ کے نام سے تعلیمی مراکز کا افتتاح کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی بھی انہی اداروں میں سے ایک ہے۔ اسی طرز پر ملک بھر میں کئی اور ادارے قائم کیے گئے جن میں ایک نام انڈیا کافی ہاؤس کا بھی ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے مذکورہ تمام اداروں سے قدرے مختلف حیثیت رکھتا تھا۔ جسے ہم ہندوستانیوں نے آج مغربی چکاچوندھ میں بُھلا دیا ہے یا پھر “تِلکَ الْایّامُ نُداوِلُها بَینَ النّاس”(القرآن) کے تحت اس پہ زمانے کی گرد جم گئی۔ نہیں! ہرگز نہیں! بلکہ ہم سب اس خسارے کے ذمہ دار ہیں۔
انڈیا کافی ہاؤس ایک سلسلہ ہے جسے تقریباً پورے ہندوستان میں قائم کیا گیاتھا۔ اس کی شروعات سب سے پہلے 1936 عیسوی میں بمبئی سے ہوئی۔ Coffee Cess Committee نے اس کا پہلا Outlet کھولا۔ یہ پہل 1940 کے دہے کی ہے۔ پھر برطانوی ہندوستان میں تقریباً 50 کافی ہاؤس کھلے۔
ہم ایسے آوارگان کی کوئی حد ہے نہ حساب… اسی لیے ہم نے ملازمت کو بھی آج تک تفریحاً لیا…(جملہ معترضہ) انہی دنوں دہلی میں ایک ملازمت کے لیے انٹرویو دینے کناٹ پلیس کے نواحی علاقہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ لوٹتے ہوئے انڈیا کافی ہاؤس کے بورڈ پر نظر پڑی۔ نظر پڑتے ہی قدم جہاں تھے، وہیں جم گئے۔ جدوجہد آزادی کی عظیم علامت کی قدر نہ کر پانے کا احساسِ جرم سر پر لادے اس آباد خرابے کی طرف چل پڑے۔ اندر پہنچ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی، اول تو وہاں کی شاہی نوازش اور پھر چھت پہ بندروں کی اودھم نے ششدر کردیا۔ ملازمین سے دریافت کرنے پر اس جگہ کی بازیافت یوں ہوئی کہ “یہ ایک تاریخی ورثہ ہے جسے ہم نے تاریخ بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے.” جبکہ اب بھی اس کافی ہاؤس کی حالت اس قابل ہے کہ وہاں سکون کے کچھ پل کتابوں یا احباب کی محفل جما کر لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔
اس دور میں جب کہ CCD کے دیوانوں کی کمی نہیں ہے، انڈیا کافی ہاؤس بھی اس تشنگی کو بجھانے کی تاب رکھتا ہے لیکن افسوس کہ ہم اپنی وراثت سے کس حد تک نابلد ہیں۔ پہلی دفعہ انڈیا کافی ہاؤس کا نظارہ ایک Short Movie میں دیکھنے کو ملا جسے ہم اس طرح نظر انداز کر گئے کہ شوٹنگ کی غرض سے کوئی جگہ سجالی گئی ہوگی لیکن کناٹ پلیس کے انڈیا کافی ہاؤس کا دورہ کرنے کے بعد پورا یقین ہو گیا کہ اس شارٹ فلم کی شوٹنگ اسی جگہ کی گئی ہے۔ بہر کیف قصہ مختصر یہ کہ ہم ہندوستانیوں نے ترقی پسندیت اور جدت کی راہیں تو خوب نکالی ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم انھیں اپنی اگلی پیڑھی تک پہنچانے میں ناکام ہیں یا پھر یوں کہہ لیں کہ ہم کو اپنی تہذیب و ثقافت کا بالکل خیال نہیں وگرنہ اب بھی ایسے بے شمار مقامات سیر و تفریح کے لیے بنے ہیں جو تاریخی وابستگی کے ساتھ ساتھ لطف کی چند گھڑیاں بتانے کے لیے کافی ہیں۔ مثلا ہیریٹیج سینٹر، آرٹ گیلری، کتاب میلہ اور دلی ہاٹ جیسی جگہیں اب بھی رونق بکھیرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔


پہلی بارانڈیا کافی ہاؤس کی تاریخ پڑھی، بڑی دل چسپ تھی، مضمون پڑھ کر مجھے یاد آیا کہ امریکہ کی آزادی کی جد جہد کا آغاز ایسی ہی ایک چائے کی تقریب سے ہوئی تھی، جو کسی بحری جہاز میں منعقد ہوئی تھی۔ فرانس اور برطانیہ کے دانشوروں کا ملتقی کافی ہاؤس ہوا کرتے تھے، یہ کافی ہاؤس در اصل اس زمانے کے سول سوسائیٹیز کا کا کام کرتے تھے، ہندوستان برطانیہ کے نو آبادیات میں سے تھا، یہاں بھی انڈیا کافی ہاؤس کا سلسلہ چل پڑا، آزادی کے بعد بھی یہ کافی ہاؤسز کافی مقبول تھے، جہاں ترقی پسند… Read more »