پیار کو پیار ہی رہنے دو، کوئی نام نہ دو

شمس ودود

ایک شام میں کافی اداس تھا اور کچھ کرپانے کی حالت میں اپنے آپ کو محسوس نہیں کر پا رہا تھا، تبھی اچانک ذہن میں ایک خیال کوندا کہ کیوں نہ اپنے ایک قرابت دار کے یہاں چکر لگا آؤں۔
میں نے اپنی گاڑی اسٹارٹ کی اور آہستہ آہستہ ڈرائیو کرتے ہوئے ان کے گھر سے قریب ہی شاہراہ پر گاڑی پارک کر دیا۔ نہ جانے کیوں من میں یہ خیال آیا کہ آؤ کچھ دور کا سفر پیدل ہی طے کیا جائے۔
میں ان کے گھر کی طرف بڑھا ہی تھا کہ آدھے راستے میں مجھے راستے میں بیٹھا ہوا ایک پالتو کتا نظر آیا۔ میری نظر اس کتے سے جوں ہی ملی، وہ کتا بڑی آہستگی سے اپنی جگہ سے اٹھا اور میری جانب بڑھنے لگا۔ میں سٹپٹا گیا، ذہن و دل میں ڈر پنپنے لگا کہ کہیں یہ کتا مجھے کاٹنے کے ارادے سے تو نہیں بڑھ رہا ہے؟ میں اس کو چھونے سے ناپاک نہ ہو جاؤں؟
میں کسی نتیجے پر پہنچ پاتا کہ وہ کتا نہ صرف میرے سامنے آ چکا تھا بلکہ وہ میرے سینے پر اپنے دونوں اگلے پیر اٹھا کر رکھنے لگا اور اپنے دونوں پچھلے پیروں پہ کھڑا ہو گیا۔ میں نے اس کے دونوں اگلے پیر اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور یہ چاہا کہ اسے اپنے سے دور بھگاؤں لیکن وہ تھا کہ مجھ سے لپٹتا چلا جارہا تھا۔
اس محلے کی چند عورتیں جن میں سے کچھ اپنے گھروں کے سامنے کھڑی تھیں اور کچھ اپنی بالکنی میں، میرے آنے سے پہلے سے ہی آپس میں گپیں مار رہی تھیں۔ اب وہ مجھے اس کتے سے الجھتا ہوا سمجھ کر سہمنے لگیں اور کچھ عورتیں اسے مجھ سے دور کرنے میں میری مدد کے لیے آگے بڑھیں۔ پر وہ کتا مجھے اپنے کسی پرانے شناسا یا مالک کی طرح پیار کر رہا تھا۔ وہ مجھ سے لپٹنا چاہتا تھا مگر میں “ناپاک نہ ہو جاؤں…” اس ڈر سے اسے اپنے آپ سے دور کرتا رہا۔
بالآخر میں نے ایک عورت کی مدد سے اسے اس کے مالک کے گھر میں داخل کر کے گیٹ بند کر دیا۔ وہی عورت جو مجھے تسلی بھی دیے جارہی تھی کہ “ڈرو مت بابو… وہ تمھیں نہیں کاٹے گا… وہ سامنے والی میڈم کا پالتو کتا ہے…”
میں اب اس کتے سے تو آزاد ہو چکا تھا لیکن اب بھی اسی کی سوچ میں گم اپنے قرابت دار کے دروازے پہ پہنچ چکا تھا، ڈور بیل بجا کر میں اپنی سوچوں میں گم ہو گیا اور میں نے یہ پایا کہ یہ ہو نہ ہو، میری انہی ذہنی ترنگوں کی وجہ سے ہوا ہے، جنھیں میں نے نفسیات کی ابتدائی کتابوں میں پڑھا تھا۔ اور میں نے یہ بھی پڑھ رکھا تھا کہ جانور (خصوصاً پالتو) ہماری ذہنی ترنگوں کو بخوبی سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
میں نے اس کتاب میں یہ بھی پڑھ رکھا تھا کہ آپ کے اندرون میں اگر پیار ہے اگر چہ آپ ظاہری طور پر سخت ردعمل کا اظہار ہی کیوں نہ کرتے ہوں تو جانور اسے جلدی سمجھ جاتے ہیں۔
مجھے اچانک خیال آیا کہ ابھی تک دروازہ کیوں نہیں کھلا (یعنی ابھی تک میں عالم خیال میں گم تھا) میں نے دروازے کو دھکا دیا اور وہ کھل گیا، پھر خود پہ ہنسی بھی آگئی کہ یہ تو مجھے پہلے سے معلوم تھا کہ ان کا دروازہ کھلا ہی رہتا ہے لیکن سوچوں کا سفر بھی عجیب ہے جو میں نے اتنی دیر باہر ہی دروازہ کھلنے کے انتظار میں گزار دیا۔
پچھلے کئی دنوں سے میں اس کتے اور اپنی حالت پہ غور کر رہا ہوں تو میرے اندر سے ایک آواز آرہی ہے کہ کیوں نہ اس کتے سے پھر ملاقات کی جائے۔ ایسے حالات میں جب کہ انسانوں سے کوئی امید باقی نہیں رہی۔
یوں تو زمانے سے مجھے رات میں آوارہ کتوں کی آوازوں سے کبھی نفرت کی حدت تک پریشانی کا احساس ہوتا تھا، مگر اب میں یہ سوچنے پہ مجبور ہوں کہ میں نے اس کتے کے ساتھ اچھا برتاؤ کیوں نہیں کیا؟ کیا اس کا پیار کرنا میرے ناپاک ہوجانے سے کم اہمیت کا حامل تھا؟
مجھے اب ایسا بھی لگتا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ اس دن اس کتے سے میں محبت کے کچھ گُر ہی سیکھ جاتا، جس سے انسانوں سے کسی حد تک نفرت کو، جو میرے اندر برسوں سے پنپ رہی ہے، کچھ کم کر لیتا؟
میں تبدیلی کا اور اچھی و مثبت تبدیلی کا خواہش مند ہونے کے باوجود اس پہل سے کیوں کر کوتاہ دست رہ گیا…؟ یہ اور ان جیسے بے شمار سوالات اب بھی میرے ذہن میں ابل رہے ہیں اور رہ رہ کے منٹو کا یہ قول بھی یاد آتا جارہا ہے کہ “حد تو یہ ہے کہ ہمیں کتوں والی زندگی گزار کر انسانوں والا حساب دینا پڑے گا”۔ لیکن ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش بھی جاری ہے… میں اپنے رب سے رحم کی امید کرتے ہوئے ان کی تلاش بھی کر رہا ہوں اور حل دریافت کر پانے میں پر امید بھی ہوں۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Shaukat Parvez

Thought provoking

Very nice and offbeat

مشینی زندگی سے چرایا ہوا ایک انسانی لمحہ

بہت عمدہ