ہمارے امتحان ختم ہوئے

محمد عرفان یونس سراجی

دنیوی امتحان:
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی فیکلٹی “کلیۃ الدعوۃ واصول الدین” کے “المستوی الخامس” کے اختبارات ختم ہوئے، جس کی وجہ سے ہمارے ساتھیوں کے چہرے پر مسکراہٹ لوٹ آئی تھی۔ میں امتحان ہال سے نکل کر  برآمدہ میں کھڑا ایک دوست سے اختبارات کے حوالے سے بات کررہا تھا، اتنے میں  میرا ایک کلاس ساتھی”خالد” آدھمکا اور کہنے لگا کہ:

“یا عرفان! نحن  انتهينا من الاختبارات، فماذا تريد خلال هذه الإجازة؟”

عرفان ہم لوگ امتحان سے فارغ ہوچکے ہیں، اب تم اس تعطیل کے دوران کیا کرنا چاہتے ہو؟
میں نے کہا کہ بھائی بہت خوش نظر آرہے ہو، کیا بات ہے؟
پھر اس نے اپنی خوشی کا سبب بڑی تفصیل سے بتایا۔ امتحان میں اپنی امتیازی کامیابی کا اسے پورا یقین تھا۔ کیوں نہ ہو، اس نے تیاری جو کی تھی۔

اخروی امتحان:
دنیوی اختبارات میں انسان اپنی کامیابی و کامرانی کے لیے کتنی جاں توڑ محنت کرتا ہے، اپنی نیند سے راتوں میں جنگ کرکے شب بیداری کرتا ہے، امتحانات کے علاوہ کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی، اس کا پورا فوکس اپنی کامیابی پر ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمیں آخرت کی سرخروئی کے لیے فکر کرنی چاہیے، اس کے لیے پنج وقتہ نمازوں، سنن رواتب، نوافل نیز قیام اللیل کا اہتمام کرنا چاہیے۔ کیوں کہ یہ دنیا  فانی ہے، یہاں کسی کو بقا نہیں ہے، امیر وغریب، حاکم ومحکوم اور بڑے چھوٹے سب پر موت طاری ہونی ہے۔ جیساکہ اللہ تعالى کا فرمان ہے:

”كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّونَ أُجُورَكُمْ يَومَ الْقِيَامَةِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ“(سورہ آل عمران:۱۸۵)

ترجمہ: ”ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے دیے جاؤگے، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے بے شک وہ کامیاب ہو گیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے“۔

مذکورہ آیت سے مستنبط مسائل:
۱۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔
۲۔ دنیا میں کیے گیے اچھے برے اعمال کا بدلہ پورا پورا دیا جائے گا۔
۳۔  دنیا میں رہ کر جس نے اللہ کو راضی کرلیا اور جہنم سے دور ہوگیا اور جنت میں داخل ہونے کا سامان مہیا کرلیا وہ کامیاب ہے۔
۴۔ یہ دنیا متاع فریب ہے، جو اس سے دامن بچاکر نکل گیا وہ کامیا ب و کامران ہے، اور جو اس کے دام  فریب میں پھنس گیا وہ ناکام و نامراد ہے۔

دنیا امتحان گاہ ہے:
یہ دنیا دار الامتحانات ہے۔ یہاں ہم نے اپنی عبادات، صدقات وخیرات، اعمال صالحہ اور کار خیر کے ذریعہ میزان حسنات بھر لیے تو بروز قیامت ہمیں جنت نصیب ہوگی۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

”وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِی خُسْرٍ إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ“ (سورہ عصر: ۱-۳) ترجمہ: ”زمانے کی قسم! بےشک انسان سراسر نقصان میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور (جنھوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی“۔

مذکورہ بالا آیت سے مستخرج مسائل:
۱۔ اللہ تعالی اپنی مخلو قات  میں سے جس کی چاہے قسم کھا سکتا ہے، لیکن انسانوں کے لیے اللہ تعالى کے علاوہ کسی کی قسم کھانا جائز نہیں ہے۔
۲۔ اس آیت میں زمانے سے مراد شب وروز کی گردش اور ان کا ادل بدل کر آنا ہے۔
۳۔  انسان کا خسار ہ بالکل واضح ہے، جب تک زندہ رہتا ہے اس کے شب و روز انتہائی محنت و مشقت میں بسر ہوتے ہیں۔ اور جب موت کی آغوش میں جاتا ہے تو وہاں بھی آرام نصیب نہیں ہوتا، جہنم کا ایندھن بن جاتا ہے۔
۴۔ جو ایمان لاکر نیک عمل کرتے ہیں ان کی دنیا چاہے جیسی بھی گزری ہو، موت کے بعد انھیں ابدی نعمتیں اور جنت کی  آسائش نصیب ہوگی۔
۵۔ مصائب وآلام میں صبر، احکام و فرائض کی بجاآوری میں صبر، معاصی و گناہوں کے اجتناب پر صبر، لذات و خواہشات کو مارنے پر صبر ضروری ہے۔

آخر میں دعا ہے کہ اللہ ہمیں دنیا وآخرت دونوں میں کامیاب و کامران کرے۔ آمین

2
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
ڈاکٹر عبدالکریم سلفی علیگ

ما شاء اللہ…. اہم رہنمائی… جزاک اللہ خیرا شیخ

محمد عرفان شیخ یونس سراجی

وإياكم جزى الله تعالى.