امریکہ اور اسرائیل ایک مضبوط حقیقت ہیں، اسرائیل بھی در اصل امریکہ ہی ہے، موجودہ دنیا میں کسی ملک کا مطلقا امریکہ کو نظر انداز کرنا اپنے کو برباد کرنا اور مٹانا ہے- علم، سائنس، ٹکنالوجی، اور دیگر مادّی و جنگی میدانوں میں اس نے جو حیرت انگیز ترقی کی ہے وہ دنیا کے سامنے ہے، ترقی و اقتدار کے جتنے حربے اور طریقے ہوسکتے ہیں ہر ایک طریقے اور فن میں اسے مکمل دسترس حاصل ہے-
جو لوگ اسّی نوّے سالوں سے عالم گیر اسلامی انقلاب اور عالمی خلافت اسلامی کے خوشنما نعرے لگارہے ہیں کبھی انہوں اپنی طاقت کا امریکہ و یورپ کی عالمی طاقتوں سے مقابلہ کیا ہے؟ کیا عالمی خلافت کے دعویدار امریکہ کو کنارے لگاکر بروقت دنیا کے کسی خطے اور کسی علاقے میں اپنی خلافت قائم کرسکتے ہیں؟ اور کہیں تھوڑی دیر کے لیے کچھ ہاتھ آجائے تو وہ بھی اس کی نرمی و خیر خواہی کا نتیجہ ہے-
تقریبا ایک صدی سے خاک و خون کا غیر شعوری اور غیر محتسبانہ عمل جاری ہے اور جان و جواں مردی کے جوہر دکھائے جارہے ہیں لیکن بے سود ہیں، تجزیہ اور تجربہ بتاتا ہے کہ جس راہ اور جس صراط پر جس تفھیم کے ساتھ ہم رواں دواں ہیں اس راہ میں ہمیں کھڑے ہو کر اب ستر اسی سالوں کے سود و زیاں کا حساب کرنا چاہیے، ہم نے یورپ وامریکہ ہی میں پناہ لے کر جس طرح سے پوری مسلم دنیا کے نوجوانوں کو امریکہ اور اسرائیل کے خلاف کم بلکہ اپنی ہی مسلم حکومتوں سے بر سر پیکار کردیا ہے کیا کبھی اس کے انجام کے بارے میں غور کیا ہے یا آنکھوں دیکھا حال بھی سمجھ میں نہیں آرہا ہے؟
اب ضرورت ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ نفرت و عداوت و انتقام کا جذبہ اب چھوڑدیں-
امریکہ سے صرف دشمنی نہ کریں کچھ مصالحانہ وقتی دوستی کرنا بھی سیکھ لیں، حالات و حادثات کو اس کے صحیح تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں، امریکہ و اسرائیل کو جنگ کے میدان میں شکست دینے کے بجائے ان دونوں طاقتوں کی ترقی کے راز کو سمجھنے کی کوشش کریں اور خود امریکہ واسرائیل بننے کی کوشش کریں _
الحرب خدعۃ ایک اہم جنگی اصول ہے-
اس وقت امریکہ و یورپ سے ہماری جنگ تہذیبی بھی ہے، معاشی بھی ہے، تعلیمی بھی ہے تربیتی بھی ہے، اقتصادی بھی ہے جغرافیائی بھی، اقتداری بھی اور ہتھیاری بھی، مذہبی بھی ہے اور دینی بھی، میڈیائی بھی اور وچار دھارائی بھی- ہر میدان میں جب تک آپ الحرب خدعۃ کے فارمولے پر حکمت، تدبر، حکمت عملی، تفکر، بصیرت اور شعور کے ساتھ آگے نہیں بڑھیں تب تک ہماری کشتی اور ناؤ بہاؤ میں ہچکولے کھاتی رہے گی-
ضرورت ہے کہ مذہبی سیاست و مزعومہ شوق شہادت کے سلسلے میں مزید تدبر و تفکر کے ساتھ اجماعی استخارہ کرکے نئ اور معیاری حکمت عملی طے کی جائے، دعوت دین کی راہ میں آنے والی ہرمصیبت کو نہ صرف خندہ پیشانی سے قبول کیا جائے بلکہ اس کا کافی و شافی حل بھی تلاش کیا جائے.
موجودہ دنیا میں اگر آپ کوئی مزعومہ خلافت یا حکومت برپا کرنا چاہتے ہیں تو کیا فرسٹ یا سکنڈ سپر پاور کے بغیر ممکن ہے؟
اور کیا جن مسلم ممالک میں ہم نے ہڑبونگ، بغاوت اور خانہ جنگی کرائی ہے کیا وہاں ہم امن وامان اور پائیدار حکومت قائم کرانے میں کامیاب ہوپائے ہیں؟
ضرورت ہے کہ ہم شیخ چلی کے خواب دیکھنا بند کردیں، اور سفید و سیاہ جبہ و شروانی والے نیشل اور انٹر نیشنل جذبات فروشوں کے بہکاوے میں نہ آکر حکمت و حق آگاہی کے ساتھ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے دعوت دین اور خدمت خلق کو اپنا مشن بنالیں، اور خوش فہمیوں کی دنیا میں سیر کرنے کے بجائے حقیقی اور زمینی دنیا میں اتر آئیں اور حکمت و بصیرت کے ساتھ طاقت، تمدن، سائنس اور علم و عمل کے جملہ میدانوں میں مدّ مقابل قوموں سے آگے نکلنے کی کوشش کریں-
اللہ ہی کارساز ہے، وہی اکیلا گنج بخش اور فریاد رس بھی ہے، وہی داتا اور غوث بھی ہے، وہی احکم الحکمین اور ربّ العالمین بھی ہے ہماری ہر دعائیں سنے گا بھی اور ہمیں ہدایت و نجات و ترقی و حیات نو کی نئ راہوں سے روشناس بھی کرائے گا-
مناظرانہ طرز اور زہر میں بجھے تیر چلائے بغیر بھی بات کہی جا سکتی ہے۔