تعاقب و تردید کا مذہبی منظر نامہ

ابو اشعر فہیم

جھوٹ بولنے اور اتہام لگانے میں اہل مذہب و مسلک اور اہل لبرلزم دونوں برابر ہیں.
لبرل اہل مذہب کے خلاف بر سر پیکار رہتا ہے، جب کہ اہل مسالک آپس ہی میں گتھم گتھا رہتے ہیں.
اردو میں تعاقب و تردید اور “ردود ” میں جتنی کتابیں ایک دوسرے کے خلاف لکھی گئی ہیں ان میں اسّی فیصد سے زائد کتابیں صحت مند اور علمی معیار تنقید سے ماوراء ہیں.
بیشتر کتابوں میں نفس موضوع سے ہٹ کر گفتگو کی گئی ہے، اسلوب، زبان، بیان اور لہجے کی سختی و کرختگی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بس اللہ کی پناہ.
مواد و موضوع سے ہٹ کر ہمیشہ جذباتی اور مناظرانہ رنگ میں نہ صرف سچائیاں شہید کر دی جاتی ہیں بلکہ ہر تعاقب و تنقید نگار کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ مخالف کو گستاخ رسول، گستاخ ائمہ اور گستاخ سلف ثابت کردیا جائے، مصنف کے موضوع و منشاء سے خود ساختہ افکار و خیالات نہ صرف کشید کیے جاتے ہیں بلکہ انھیں مکمل “کشیدہ “بناکر پیش کیا جاتا ہے. اختلافات کی نہ صرف خود ساختہ عمارتیں کھڑی کی جاتی ہیں بلکہ اتہام و الزامات کا پورا “خلیفہ ٹاور ” ہی کھڑا کر دیا جاتا ہے.
فروعاتی اور اختلافی مسائل پر لکھی گئی بیشتر کتابوں میں بڑی مشکل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے اور حق کیا ہے.
تنقید و تعاقب کا جو علمی معیار ہے اور نقد و نظر کا جو عادلانہ اسلوب ہے اردو کے” مذہبی و مسلکی لٹریچر “میں بہت کم کتابیں اس معیار کو پہنچ پاتی ہیں.
قلم ایک امانت ہے. اختلاف فکر و نظر کا ہونا یہ معیوب نہیں ہے. بس کوشش یہ ہونی چاہیے کہ نقد وتبصرہ اصولی اور صحت مند ہو. نفس موضوع پر گفتگو ہو، امانت و دیانت اور ایک مومن کی عظمت کا احساس دل میں ہو اور قلم اور زبان چلانے کے سلسلے میں آخرت میں جواب دہی کا بھی احساس ہو،
ایسا نہ ہو کہ ہم کسی کے دفاع میں اس طرح اٹھ کھڑے ہوں کہ ہمارے لیے دنیا کی عظیم ترین شخصیات اور اس امت کا رول ماڈل اور اسلام کی جیتی جاگتی صحابہ کی ہستیوں پر حرف آئے اور ان سے سوء ظن کا عنصر ہمارے افکار و خیالات کا محور قرار پائے.

آپ کے تبصرے

3000