ہم جس زمانے میں سانس لے رہے ہیں اسے عہد جدید کہا جاتا ہے۔ عہد جدید کی گوناگوں خصوصیتوں میں سے شعور و ادراک اہم ہیں جو عقل کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مگر ہم جس دین کے پیروکار ہیں اسے دین اسلام کہتے ہیں۔ دین اسلام میں اللہ تعالیٰ نے شعور، ادراک اور عقلیت اسی مقدار میں فراہم کی ہے جتنی تا قیامت ہمیں اور ہماری فہم و فراست کے لیے ضروری ہے۔ اب آئیے شعور، ادراک اور عقلیت کے علاوہ ہم ایک اور عنصر پہ نظر ڈالیں جو عقل کی تشکیل و تعمیم میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اس کی بھی ہمیں روزمرہ کی خاص و عام زندگی میں ضرورت پڑتی ہے؛ اسے ہم روحانیت کہتے ہیں۔
اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے۔اس کے مطابق روحانیت وہ شئی ہے جو ہمیں یہ بتلاتی ہے کہ ہم کسی نہ کسی طور سے اللہ واحد سے جڑے ہیں۔ اسی کی عبادت و ریاضت کرتے ہیں۔ اسی کی حمد و ثنا ہم انسانوں کی زندگیوں کا اہم موقف و مقصد ہے۔ مگر جب ہم ایک نظر روحانیت کے معاشرتی پہلوؤں پر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ دین اسلام میں روحانیت یا اسلام کا روحانی پہلو دراصل چند افیونی افکار کا نام ہوگیا ہے جو عہد وسطی سے ہی ایک مکمل تحریک کی شکل میں ابھری ہے۔ اس تحریک کے بانی چند ایسے انڈرگراؤنڈ مافیا ہیں جن کی فکری زنجیریں سبائی تعلیمات سے بوجھل ہیں۔ یہ تعلیمات ظاہری طور سے صوفیوں کی شکل میں باطنیت کا ازار زیب تن کر کے برابر پرورش پاتی رہیں ہیں حتٰی کہ ان کی فکر اسلام کے سوچنے والے ایک بڑے طبقہ یا مسلمان فلسفیوں پر غالب رہی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ کسی زمانے میں فلسفی اسلامی اقدار سے خوب کھیلتے رہے۔ ان کی دھماچوکڑیوں نے اسلام کی تعبیرات کو بدلنے کی خوب کوششیں کیں جس کے نتیجے میں موحدین و مجاہدین علماء نے علم فلسفہ کو ہی گمراہی کا سرچشمہ قرار دے دیا۔ اس کا منفی اثر یہ ہوا کہ مسلم دنیا کا سارا علمی و فلسفیاتی مجاہدہ ایک ایسی فکر نے ہتھیالیا جو سبائی تعلیمات کا درپردہ نمائندہ تھا۔ اس نےاسلام کے (خود ساختہ) نمائندہ کی حیثیت سے ”اسلام کی ایک نئی تعریف وتعبیر“ کو ترویج دینے کی کوششیں بھی کیں۔ اس فکر نے اسلام کی فکر ی کد و کاوش کو ٓاگے بڑھانے والے نکتہ یا طریقہ تفہیم کو بھی ہڑپ کرلینے کی کوششیں کیں جسے ہم اجتہاد کہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہم موجودہ زمانے میں ایسا کوئی علم نہیں پاتے جو اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ اجتہاد یا مجتہد نامی شئی سے بھی ملحق ہو۔ یہ بھی کہا جانے لگا کہ سنّی علماء روحانیت کو نہیں جانتے نہ ہی روحانیت جو اسلام کا منشاء ہے اس کی کوئی تعبیر کرسکتے ہیں۔
اسلام پہ اپنی اجارہ داری دکھانے والا یہ صنم اکبر دراصل بغض کی دیوی ہے۔ یہی دیوی اولین مسلمین کے تئیں حسد، دشنام طرازی اور کینہ توزی کو عین عمل دینی باور کرانا چاہتی ہے۔ دیوی حد درجہ تخریبی قربانیاں مانگتی ہے اور انتہائی گھناونے انعامات سے نوازتی بھی ہے۔ بہر کیف، اس دیوی کا یہ گمان ہے کہ دین اسلام میں روحانیت اسی کے دم سے ہے جو وقتاً فوقتاً پوری دنیا پہ اثر انداز ہوتی ہے، مثال کے طور پر ۱۹۷۹ کی ”ایرانی اسلامی تحریک“ جس کے روح رواں ایرانی امام خمینی سمجھے جاتے ہیں اس تحریک نے ظاہری طور پر پورے ایران کو ایک قالب میں ڈھال دیا جس کے نتیجے میں ایک ”خالص“ ایرانی اسلام پیدا ہوا۔ اس ایرانی اسلامی حکومت کی تب سے یہی کوشش ہے کہ پوری اسلامی یا مسلم دنیا کی رہنمائی کی نکیل ایرانی اسلام کے ہاتھ آجائے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے نت نئی ترکیبیں نکالیں۔ کبھی سنّی دنیا میں اقلیت کے نام پہ اپنے اسلام کو بڑھاوا دیا، کبھی تہذیبی میراث کے نام پہ آریانزم کی پرورش کی تو کبھی مظلوم کی حیثیت سے سنّی دنیا میں قبول کیے جانے کی دُہائی دی۔ یہی نہیں بلکہ آج ایرانی اسلام نے مسلم دنیا خصوصاً عرب دنیا میں اپنے اثر کو برقرار رکھنے اور غالب کرنے کے لیے سیاسی۔معاشرتی بحران کے مسئلہ کو ابھارا؛ پیدا بھی کیا۔
جغرافیائی مفاد کو مدنظر رکھ کر یہ دعوے کیے کہ عرب ممالک کا بیشتر حصہ (بالخصوص خلیجی ممالک) دراصل ”گریٹر ایران“ کے ٹکڑے ہیں جنھیں ”وہابی لٹیروں“ نے ان سے چھین لیا تھا۔ ابو ظبی، سعودی عربیہ کا شرقی حصہ، عراق کا ایک بڑا حصہ بھی دراصل ایران کے مطابق ”گریٹر ایران“ کے ٹکڑے تھے جبکہ یمن، شام اور لبنان ایرانی مفاد کی سیاسی آماجگاہ کے طور سے ایران کے لیے وقف ہیں۔ سنّیوں کا خون سنّی ہے اور وہ نِفط و نقد کے مقابل کچھ بھی نہیں _ گٹر کے پانی سے بھی ارزاں ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں ایرانی اسلام کی آلہ کار ہیں۔ بین الاقوامی دہشت گردی کی ماں ایرانی اسلام ہے۔ آل شیخ اور دنیا بھر کے سنّی علما کی میراث اس ماں کی نظر میں عرصہ سے کھٹک رہی ہے۔ ان کا ٹارگٹ وہی ہے __ مکہ اور مدینہ لے کے رہیں گے اس لیے کہ اسلام کی روح پہ ایران کا حق ہے اور مستقبل کے اسلام کی روحانیت ایرانی ہونی چاہیے نہ کہ وہ جو قرآن سے آئے، احادیث سے آئے، صحابہ کرام کے سمجھے ہوئے اور عمل میں لائے ہوئے معاشرتی شعور سے آئے، انبیائی حوالہ جات اور نبوی خطاب سے آئے؛ اول اسلام کے عرب کی سنّی اسلامی تفہیم سے آئے۔
عجیب وغریب سوال
یہ سوال ایسے ہی ہیکہ جیسے یہ پوچھا جائے کہ گڑ اور چینی میں مٹھاس کہاں سے آئے
محترم، روحانیت کی سیاست پہ ذرا توجہ دیں. ہماری نوجوان بہنیں، چھوٹے اور بڑے بھائی کی نظر میں اسلام کی ایک اچھی تصویر ہے لیکن جب یہ بات کی جانے لگے کہ کون سا اسلام اچھا ہے، کس کا اسلام اچھا ہے.. کس والے اسلام میں روحانیت ہے….. تو آپ کو گڑ، چینی اور مٹھاس کے تعلق کو پھر سے سمجھنے کی کوشش کرنی پڑے گی. سوال سیاسی ہے اور سیاسی چیزیں تو پہلے تعجب میں ڈالتی ہیں…..
روحانیات انسان کے اپنے رب سے جڑے احساسات سے تعبیر کیا جائے تو ہر مذہب و ملت حالانکہ عقائد سے جڑے فلسفی بھی کسی نہ کسی طور روحانی احساسات کے حامل ہوتے ہی ہیں
بہت عمدہ ڈاکٹر نورا، آپ نے مسئلہ کےحالیہ سیاسی صورتحال کو بہت اچھے طریقے سے اجاگر کیا. دراصل یہ چیزیں دنیا میں چل تو رہی ہیں مگر شاید ہم کچھ اور دیکھنا چاہتے ہیں…
ڈاکٹر نورا حنبلی کی یہ تحریر بتاتی ہے کہ دور حاضر میں اسلام کی ترجمانی کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ جن مسلم خواتین کی تلاش ہے، ان کے اندر یہ صلاحیت بحمداللہ موجود ہے۔مجھے ان کی شخصیت اور مصروفیات کا کوئی علم نہیں البتہ روحانیت کے مظاہر کی تعیین اور اس کی تاریخی کشکمکش پر جو مختصر گفتگو انھوں نے کی ہے،اس کی تفصیل کے لیے ایک بھرپور کتاب کی ضرورت ہے۔ملت کی موجودہ صورت حال اور اس میں فکری وعملی بے سمتی اور انتشار کی جڑیں بڑی گہری ہیں۔ماضی میں جن شخصیات نے ہمارے روحانی نظام کی صورت گری… Read more »
عاجز کسی بھی طرح کے کمنٹس سے معزور ہے البتہ کچھ کمنٹس کافی علمی ہیں 😊😊❤️❤️