اب یہ خیال چھوڑ دو کہ آرائش ہے تخلیق میری

شہلہ تبسم خان

ہر شخص کی زندگی تجربات سے بھری پڑی ہے۔ تجربات زندگی کا واحد تحفہ ہیں۔ تجربات جس قدر تلخ ہوتے ہیں انسان کی شخصیت، خیالات اور اس کی باتیں اسی قدر شیریں، واضح اور مثمر رمز لیے ہوتی ہیں۔
”نسائیت کے سانچے میں سانس لینے والی  شخصیت کی حیثیت سے میں ایک انسان ہوں۔ میں “میں بھی” نہیں بلکہ میں سے مراد میرا مادی وجود ہے۔ مجھ پر بنی نوع انسان کا ہر فرد ایک بوجھ ڈالتا ہے کہ میں چپ رہوں۔ وہ مجھے اخلاق کا سبق سکھاتا ہے اور پھر خود ہی اسے پامال کرتا ہے۔ وہ مجھے تہذیب سکھاتا پھر خود ہی اسے اجاڑ دیتا ہے۔ وہ میرے چلنے، پھرنے، اٹھنے، بیٹھنے تک کو غور سے دیکھتا ہے۔ وہ میرے کپڑوں کو جو جدید طرز کے ہوتے ہیں غور سے دیکھتا ہے۔ وہ میرے ان کپڑوں پہ بھی نگاہ رکھتا ہے جو مشرقی طرز کے ہوتے ہیں۔ وہ مجھے نظر اٹھا کر چلنے سے منع کرتا ہے اور خود میری غفلت میں مجھے گھورتا رہتا ہے“۔
یہ چند سطریں میں نے اپنی جاب کے دوران ایک پروجیکٹ میں کسی خاتون سے انٹرویو کے دوران لکھی تھیں۔ مجھے نہیں معلوم تھا میری ان سطروں کو سنبھال کر رکھ لینے کی وجہ سے میں بالکل نئی قسم کی انسانی کوششوں سے متعارف ہوسکتی ہوں۔
میں نے دینی درسگاہیں اٹینڈ کی ہیں۔ اللہ نے مجھے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ابوظبي کا سفر کروایا۔ وہاں سے سعودیہ عربیہ کی جانب میں نے رخ کیا۔ میرے ساتھ میرے محرم تھے اور خاندان کا ایک لمبا سلسلہ اور بہت بڑی بڑی سفارشیں بھی تھیں۔ مجھے تعلیم حاصل کرنے کے لیے کبھی نہیں روکا گیا، اور بڑے علمی موقعوں پہ بھی کبھی ٹوکا نہیں گیا۔ میرا پہلا ایم اے ممبئی کے ایک کالج سے  سائکولوجی میں تھا۔ مجھے لگتا ہے میری باقی ماندہ تعلیم کا موضوع ہیومن سائکولوجی سے متعلق ہی ہوگی۔ ابوظبی اور پھر سعودیہ میں علم اور اعلی تعلیم کے الٹ پھیر نے ایک وقت میں مجھے بہت ہی اکسائٹڈ کر دیا تھا۔ میں بہت پڑھنا چاہتی تھی اور اب ایک وقت آیا مجھے لگنے لگا کہ میں نے بہت پڑھ لیا۔ اس لیے نہیں کہ واقعتاً میں نے بہت پڑھ لیا تھا بلکہ اس لیے کہ مجھے کسی نے “بتایا” آپ کیوں پڑھ رہی ہیں۔ دھیان رہے اس نے یہ نہیں پوچھا کہ آپ کیا پڑھ رہیں ہیں اور آپ کو کیا پڑھنا چاہیے، یہی وجہ تھی کہ ان سے گفتگو جاری رکھی گئی۔
تعلیم و تعلم  کی راہ میں لگ جانے کے بعد آپ خود اپنے شعور کو سمجھنے لگتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کا شعور آپ کا ہے ہی نہیں۔ تعلیمی نظام کی ایک اچھی بات ہے وہ آپ کو ذہنی طور پر بالغ بنا دیتا ہے اور ہمارے معاشرتی نظام کی ایک بری بات  یہ ہے کہ وہ آپ کو بالغ ہونے ہی نہیں دیتا، کبھی جسمانی ساخت کو مد نظر رکھ کر اور کبھی ذہنی کجی کو مد نظر رکھ کر۔ پچھلے کئی سالوں سے میں ہمارے ایک خیر خواہ کی باتیں بڑے غور سے سن رہی ہوں۔ وہ وہی زبان بولتے ہیں جس کو میں بولنا چاہتی ہوں۔ میں اپنے تجربات اور اپنی پروفیشنل لیاقت کو سامنے رکھ کر ایسی بات کہنا چاہتی ہوں جو ہمارے لیے بالکل نئی نہیں۔ میرے موضوع میں عورت، پدرانہ نظام، علماء، دین، تہذیب اور ہمارے سوچنے کا انداز اہم نکات ہیں۔

عورت: دو تعارف
پہلا تعارف:
عورت ایک فائدہ اٹھانے کی چیز ہے۔ وہ تمھاری زندگی میں رنگ بھرنے کے لیے ہے۔ ان سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے تو اس کی اچھے طریقے سے پرورش کرو۔ وہ تمھارے گھر کی زینت ہے اور تمھارے گھر کی سوگواری پہ چہچہاہٹ طاری کر دینے والی ایک مخلوق بھی ہے۔
مگر عورت عورت ہے، وہ شیطان کا دوسرا روپ بھی ہے۔ عورت کو اتنا پڑھاؤ جس سے وہ تمھارے کنٹرول میں رہ سکے۔ عورت تمھاری عزت ہے اور تمھاری غیرت بھی ہے۔ اس کے پاس زیادہ عقل نہیں ہوتی اس لیے اس سے مشورے نہ لو۔ اس کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی تبدیلیاں اس کے مزاج کو ڈھالتی ہیں۔ وہ تمھاری جائداد اور ملکیتوں کے بٹنے کی وجہ بھی ہوتی ہے۔ انھیں کنٹرول اور مکمل کنٹرول میں رکھو۔ کون اسے کب پاگل بنا کے اڑا لے جائے کسی کو کچھ نہیں پتہ۔ عورت مرد کی ماتحت ہے اس لیے کہ مرد قوام ہے۔
دوسرا تعارف:
ہم درد کی رکھوالی کرنے کے لیے ہیں۔ ہم سے وراثتیں زندہ رہتی ہیں۔ ہم مذہب کے اسی طرح محافظ ہیں جس طرح تم مذہب کی حفاظت کے ذمہ دار۔ شاید تم سے مذہب کی اب حفاظت نہیں ہوتی مگر ہم تو آج بھی ایک کھوٹے سے بندھے ہیں، اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کرتے ہیں اور دین میں اپنی راہ اور جگہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے مایوس ہوگئے ہیں۔
ہزارہا سالوں سے ہم تمھاری زندگی، ملکیت، سلطنت، قوت، مردانگی اور غلیظ خواہشات کے حساب سے اس طرح سجائے جاتے رہے جیسے ہماری تخلیق بس آرائش ہے۔ تم ہماری رگ و ریشہ تک کو چٹخارے کا موضوع بنا لو اور ایمان کا محل بنا کر اس پر پرہیزگاری کی کنڈی چڑھا لو  تو کیا بات بن جائے گی۔ تم ہمیں بیچو، خریدو، بوڑھوں سے بیاہ کرادو، بچوں سے بیاہ کرا دو، یا بیاہ نہ کراؤ اور ہماری رائے تک نہ لو۔ ہم أشياء کے معاملے میں، شوہر کے معاملے میں اور بود و باش کے معاملے میں بس اظہار بھر کر دیں تو آپ لال پیلے ہوجائیں، نتیجے میں ہماری گردنیں کبھی کسی گٹر میں پڑی ملیں اور ہم کبھی کسی روڈ حادثہ میں تباہ ہو جائیں، کبھی سلینڈر پھٹ جائے، کبھی ہم اپنے مسیحاؤں کے ہاتھوں خود مذہبی تعلیم گاہوں اور کبھی غیر مذہبی تعلیم گاہ اور آفسوں میں برباد ہو جائیں۔
عورت اور پدرانہ نظام:
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پدرانہ نظام یہ مردوں کی یا مردانہ نکتہ نظر کی کنجی ہے۔ اسلام کا شروعاتی دور ہمیں بتاتا ہے  کہ کیسے اس نے پدرانہ نظام کے ظلم سے عورت کو آزاد کرایا، اس طرح آزاد نہیں کرایا کہ دنیا آپ کے پیچھے تلوار لے کر دوڑ پڑے بلکہ اس طرح کرایا کہ نبی کے معجزے اور قرآن کا اعجاز  کام میں آئے۔ دینی تعلیم یہ نہیں ہے کہ عورت کو کوہ کاف میں چھپا دو اور چیختے پھرو ہم سے بڑا مذہب والا کوئی نہیں! دینی تعلیم یہ نہیں ہے کہ عورت کو اس کے جسمانی جغرافیہ، اس کی نفسیاتی حالت کو مد نظر رکھ کر آپ معاشرت کے مصادر و مراجع کو سمجھیں بلکہ یہ ہے کہ عورت کو وجودی اور انسانیت کے مقام کے لحاظ سے آپ کس طرح اپنی اور خود عورت کی کے لیے اسے کیسے پیش کرتے ہیں! شروع کے اسلام اور قرآن و سنت کی تفسیر میں عورت انسانیت کے سانچے میں دیکھی گئی …. تہذیبی پیچیدگیوں کے سانچے میں نہیں۔
پدرانہ نظام کے لیے اچھے خاصے جواز ہیں اور ہو سکتے ہیں۔ پدرانہ نظام اچھا بھی ہوسکتا ہے مگر کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ابھی کے پدرانہ نظام کا سپورٹ کرنے کے بجائے ہم عورت کو لکھنے، پڑھنے اور علوم دینی_دنیوی (میرے لیے دونوں ایک چیز ہے) کی حفاظت کے لیے اس طور سے آگے بڑھائیں جس میں معاشرہ کو واضح رہنمائی ملے۔ آپ کو اگر ڈر ہے کہ عورت کو زیادہ پڑھائیں گے تو چولہا کون سنبھالے گا، یا کہیں وہ امامت نہ کرانے لگیں تو آپ تھوڑا سا بھروسا کریں (اس کے علاوہ آپ کے پاس کوئی آپشن نہیں یا خطرناک آپشن ہے)، ہمیں ایک محفوظ ماحول دیں ہم آپ کو ایسی نسلیں دیں گے جو چہار دانگ عالم میں دینی شعور کو پروان چڑھادیں۔

مربیانہ انداز:
کرم خوردہ دلوں پہ واقعی سانپ لوٹ جاتے ہیں جب ہم مردوں کی بے جا خواہشات کو پورا نہ کر سکیں۔ فطری چیزیں پورا کرنے میں کسے انکار ہوسکتا ہے مگر اسے بہانہ بنا کر کوئی شخص ہمیں نفسیاتی مریضہ بنا دے تو ویل ہے ایسے شخص پہ اور ایسی تہذیب کے اقدار پہ۔ ایسے میں آپ کو مان لینا چاہیے کہ ہماری تہذیب منافقانہ اقدار کو بھی ہوا دیتی ہے۔ میری سہیلی کی ماں اور گھر والے اس کی شادی اس لیے نہیں کرانا چاہتے اگر وہ چلی گئی تو گھر کون سنبھالے گا! خواتین کی تحریروں میں ہم آج بھی گلابی رنگ ڈھونڈتے ہیں جب کہ ہماری بہت سی بہنوں نے مغربی ممالک میں جنسی ہجرت کو اپنا لیا ہے شاید ہندوستان میں بھی اپنانا شروع کردیں یا کر دیا گیا ہو؛ جنسی ہجرت دراصل جنس کی تبدیلی کا نام ہے۔ ایسا عورتوں کی اس نفسیات میں مبتلا کرنے والی تہذیب کا تمام قسم کی اخلاقیات سے بے بہرہ ہوجانے کی وجہ سے ہے وہیں ان کی تربیت پہ کم توجہ دینا بھی اہم کردار ادا کرتا ہے؛ یا آپ اس کی جو چاہے تاویل کر لیں۔

جس تہذیب کے پاس ”صرف“  تعلیم ہو وہ تو تباہ ہوتی ہی ہے اور جس تہذیب کے پاس تعلیم نہیں ہوتی وہ ایک جہالت زدہ پدرانہ نظام کے ہتھے  بالآخر چڑھتی ہے، کم سے کم تاریخ ہمیں یہی بتائے گی۔ اب اگر تہذیب خود بھی تربیت کے نام پہ دو راہیں نکالے اور مربی بننے کے نام پہ نسائی شعور کو کنٹرول رکھنے اور ماتحت بنانے کے لیے نئی نئی ترکیبیں نکالے تو ہم بلا قید مسلک و ملت اپنے لوگوں کے پاس کیوں رہیں؟ ہمارا ایسے ماحول میں دم  کیوں نہ گھٹے؟ ہم محلہ میں برقعہ اور محلہ سے باہر اسکرٹ میں کیوں نہ گھومیں؟ ہم فرار اختیار کیوں نہ کریں؟ جب ہم اس موضوع پہ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں تو آپ کا مربیانہ انداز ہمارے تمام تر غموں کو اپنی دانست میں ختم کرکے چند حوالہ جات، وراثت، طریقہ، روایت کی دہائی دیتا ہے۔ جب ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ ہماری ماں ہمارے بھائی کو دودھ کا پیالہ ناشتہ میں پہلے دیتی ہے اور ہمیں چائے روٹی تو آنکھوں سے سیلاب کیوں نہیں بہہ پڑتا!
میں غلیظ ہوں، میں خبیث ہوں……۔ یہ محترمہ اقرا خلجی کے جملے ہیں جسے انھوں نے چند دنوں پہلے بی بی سی پہ اور دوسری جگہوں پہ وائرل کیا۔ ان کے یہ جملے ہماری مہذب اور پڑھی لکھی دنیا میں عورتوں کے اعضاء کو لے کر کانا پھوسی کرتے ہوئے وجود میں آئے۔ وہ شاعرہ بھی ہیں۔ میرے حساب سے ایک پڑھے لکھے معاشرہ سے آپ پرورٹڈ خیالات کی امید نہیں کر سکتے۔ میں بھی ایسا ہی سوچتی ہوں۔ میں ایک مدرسہ کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ بھی ہوں، میرا بہت گہرا رشتہ ایک دینی گھرانے سے ہے۔ مگر آج جب میں ایک دین والے معاشرہ سے ذرا قریب بھی جاتی ہوں تو مجھے اس سے زیادہ برے سلوک اور پرورژن کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو پہلی حالت میں صرف ایک ہائیلی کوالیفائیڈ یونیورسٹی کے ماحول میں آزاد سوچ کے نام پہ تھا۔
اب یہ خیال چھوڑ دو کہ آرائش ہے تخلیق میری…… یہ بہن خلجی کے اشعار کے آخری جملے ہیں۔
ہماری جنریشن ایک دباؤ اور معاشرتی پریشر سے تو بھاگنے کا انتظام کر چکی ہے مگر کیا اس کے پاس اباحیت والے دروازے کے علاوہ کوئی اور دروازہ ہے؟ ہماری نسل، ہماری ہی تہذیبی نظام سے بد دل ہے اور ہمارے علماء سے نظریں چرانے لگی ہے…. کیا پھر ہماری نیتوں میں کوئی کھوٹ ہے؟
(میں شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں ہمارے کچھ خیر خواہ کا جنھوں نے مجھے بہت پرانی مگر ضروری بات کہنے کا راستہ سجھایا اور میزان بھائی کا جن کے غائبانہ تعارف نے مجھے ڈھارس بندھائی اور یہ بتایا کہ نجات دہندہ آچکا ہے اور علماء تیار ہیں نئی نسل کو مخاطب کرنے کے لیے)

17
آپ کے تبصرے

3000
11 Comment threads
6 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
12 Comment authors
newest oldest most voted
Md Serajuddin

Bahut hi jandar Mazmoon

سعد احمد

غالباً اقرا خلجی جن کی محترمہ تبسم نے بات کی یہی ہیں.
https://youtu.be/yKlwuzlUw7o

Mohammad Asim

عموما عورتیں جذباتی ہوتی ہیں اگرچہ وہ دینی درسگاہوں سے کیوں نہ پڑھی ہوں جب وہ کھلے ماحول میں آتیں ہیں تو اس بات کا قوی امکان رہتا ہے کہ کہیں راہ سے بھٹک نہ جائیں ایسے میں ان کو اعلی تعلیم دلانے میں لوگوں کو بڑے تحفظات ہوتے ہیں…. اس مشکل کا حل کیا ہوسکتا ہے یہ بڑا سوال ہے

تبسم

کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ عورتیں جذباتی ہوتی ہیں؟ کھلے ماحول میں ایسا کیا ہوتا ہے کہ عورتیں راہ سے بھٹک سکتی ہیں؟

تبسم

آپ کو کیا لگتا ہے عورت جذبات ہوتی ہے؟ جذباتی ہونے سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟ اگر میں کہوں آپ کی امی٪89 گھر کا انتظام سنبھالی ہیں تو کیا وہ جذباتی ہیں؟اگر جذباتی ہوتیں تو وہ چیزیں سنبھال پاتیں؟

ام ھشام

میرا پسندیدہ موضوع ہے بڑے انہماک سے پڑھ رہی تھی لیکن جوں جوں تحریر آگے بڑھی ۔۔۔۔الجھاو بڑھتا گیا ۔۔۔
مجھے واقعی سمجھ نہیں آیا اخیر تک کہ شکوہ کس بات کا ہے ؟
موقف واضح نہیں ہورہا ۔۔۔مسائل کا ذکر اپنی جگہ برحق لیکن causesبھی مینشن کئے جاتے مختصرا ان کا حل بھی بیان کیا جاتا تو شاید ۔۔۔تحریر کی چھب ہی الگ ہوتی ۔
بہر حال اسلوب بہت جاندار ہے بارک اللہ ۔۔۔

تبسم

آپ کا بہت بہت شکریہ. میں بہت زیادہ خوش ہوں کہ کسی نے اس طرح کے موضوع کو پڑھنے کے بارے میں سوچا بھی.مضمون کا کوئی ایسا دنیا بدل دینے والا موقف نہیں جو ہے اس سے آپ کے اس پورٹل کے ذمہداران واقف ہیں… مسائل کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش ہے. الجھاؤ کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے. وجہیں اور دیگر ضروری چیزیں تو اب آنی چاہئیے جب کہ بات شروع ہو گئی ہے. میں کوشش کروں گی…. اپنی مصروف دکھنے والی بہنوں سے کچھ کہنے کی گذارش کروں. میں آپ سے بھی درخواست کرتی ہوں اس موضوع… Read more »

صلاح الدین

ماشاءاللہ بہت عمدہ تحریر۔۔۔۔ مجھے امیدہے آگے بھی ان شاءاللہ اس سے بہتر مضامین پڑھنےملےگا۔۔۔

صلاح الدین

آجکل ہندوستان کے جامعات کا ماحول کچھ الگ ہے۔۔۔ گارجین کو ضروری ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت نئے دور کے حساب سے فرینڈ کی حیثیت سے کریں تو ضرور کچھ مثبت اثرات ملیں گے

رفیق احمد رئیس سلفی(علی گڑھ)

بحث اس سے نہیں کہ جو کچھ تحریر کیا گیا ہے ، اس میں عقل وفطرت کی کتنی رعایت کی گئی ہے ،ہمارے لیے اطمینان کی بات یہ ہے کہ دور حاضر کے نسائی جذبات سامنے آرہے ہیں۔پدرانہ نظام شاید ان جذبات کا اظہار نہیں کرسکتا تھا۔ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا اگر مادرانہ نظام کی تشکیل اور صورت گری کی جائے۔اقرا خلجی کی نظم بھی اسی ضمن میں سنی جس سے متاثر ہوکر مضمون لکھا گیا ہے۔چند لوگوں کے غلط رویے سے پورے سماج کو ہدف ملامت بنانا مناسب نہیں ہے۔دور حاضر میں فکر وعمل کی جو آزادی نظر آرہی… Read more »

تبسم

سر شکریہ، دیر سے جواب کے لئے معافی. اس پورٹل پر جتنے مقالے آپ کے ہیں انہیں دیکھ کر میں ہمت ہی نہیں جٹا پارہی تھی کے ریپلائی لکھوں. آپ کے تمام مقالے ایک اچھی اور تعمیری فکر لئے ہوئیں ہیں… تعمیر کی خواہش نے مجھے تعمیری کام کرنے والوں سے ملوایا ہے. میں صرف لکھ کر بیٹھ جاتں تو لکھنے کا فائدہ ہی نہیں تھا… آپ کے فیصلے پہ بڑی حیرت ہوئی کہ میرا یہ مضمون میری کسی مظلوم بہن جس کے پاس کوئی سلیم الطبع شخص گیا بھی نہیں، بات بھی نہیں کی، سے متاثر ہے. . جب… Read more »

تبسم

سر شکریہ، دیر سے جواب کے لئے معافی. اس پورٹل پر جتنے مقالے آپ کے ہیں انہیں دیکھ کر میں ہمت ہی نہیں جٹا پارہی تھی کے ریپلائی لکھوں. آپ کے تمام مقالے ایک اچھی اور تعمیری فکر لئے ہوئیں ہیں… تعمیر کی خواہش نے مجھے تعمیری کام کرنے والوں سے ملوایا ہے. میں صرف لکھ کر بیٹھ جاتں تو لکھنے کا فائدہ ہی نہیں تھا… آپ کے فیصلے پہ بڑی حیرت ہوئی کہ میرا یہ مضمون میری کسی مظلوم بہن جس کے پاس کوئی سلیم الطبع شخص گیا بھی نہیں، بات بھی نہیں کی، سے متاثر ہے. . جب… Read more »

تبسم

میں نے اپنے مضمون میں یہ ذکر کیا ہے کہ عورتیں زندہ گاڑی جاتی تھیں عرب میں، آقائے نامدار، تاجدار مدینہ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے یہ لعنت ختم ہوئی، یہ پدرانہ نظام کا خاتمہ نہیں تھا بلکہ نظام کی اصلاح تھی. ٹھیک اسی طرح آج عورتیں بالخصوص پروفیشنل اور انڈسٹریل دنیا میں داخل ہو چکی ہیں خود آپ بیسویں خواتین کو جانتے ہوں گے جو انڈسٹریل دنیا کا اہم حصہ ہیں مگر اخلاقیات والی دنیا ، اسلام، ہمارا معاشرہ انہیں کیسے ڈیل کرتا ہے؟ کیا وہ سب بد کار ہیں؟ مری بہت سی دوست کال سینٹرز… Read more »

صالح بدر

ماشاءاللہ زبردست

نورا حنبلی

السلام وعليكم، مس تبسم، شکریہ آپ نے اپنا مضمون شيئر کیا. آپ کے مضمون نے مجھے بھی بہت سی چیزیں کہنے کی ہمت دلائی ہے. کہی جانے والی بات کو باغیانہ رنگ دینا یا گمراہی کے زمرے میں پہلی فرصت میں رکھ دینا کسی بھی معاشرہ کے لئے اچھا نہیں. میں آپ کی جرات کی داد دوں گی، اور آپ کی معتدل بات کی اتباع بھی کروں گی. دراصل ہمارے دینی طبقے میں یہ رجحان زیادہ ہےجس کے بنا پہ وہ یہ سمجھا ہے کہ اسے تمام موجودہ معروفات کا اسلامی نکتہ نظر سے علم ہے. اور نئے بولنے والے… Read more »

عبدالرحمان محمد عظیم

میں مضمون میں کچھ الجھا لیکِن کمینٹ کو پڑھا تو بات سمجھ میں آئی۔ میں شہلا تبسّم بہن کا شکر گزار هوں کہ انہوں نے دور جدید کو مدّ نظر رکھتے ہوئے تعلیم نسواں کے تعلق سے کچھ کہنا چاہا ہے میں بھی اُن باتوں سے متّفق ہون لیکِن ہمیں دور جدید میں پڑ کر اپنے آخرت کو ہرگز نہیں بھولنا چاہئے۔ ہمارے شریعت میں ہر كام جائز اور درست ہے سوائے ان کے جن سے اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہو يا جو گناہ کا سبب بنتا ہو۔ اِس میں کوئی شک… Read more »

اختر جاوید

مسلم معاشرہ ،ابتذال آمیز مشرع معاشرہ ہے، جہاں شریعت کی کم اور ابتذال کی اہمیت زیادہ ہے ۔۔ عورت کو لیکر ہمارا معاشرتی ذہن مذھبی نہیں بلکہ مبتذل ہے لہذا دین اور مسلم معاشرتی کلچر دونوں الگ الگ چیزیں ہیں ۔۔ذہن دونوں کو گڈ مڈ کرنے سے خراب ہوتا ہے ۔۔۔۔
عورت کو دیکھنے، سمجھنے اور احترام کا سارا جذبہ روایتی ہے، ہم قدیم کشتہ تہذیب کے مارے ہوئے لوگ ہیں ۔۔