ہم دل میں ابھی خواہشِ سادہ نہیں رکھتے
اے دوست بچھڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے
پہچان الگ اپنی بناتے ہیں جہاں میں
رنگوں کا عجب ہم یوں لبادہ نہیں رکھتے
فطرت میں بخیلی ہو کسی کی تو سمجھ لے
دل اس کے لیے ہم بھی کشادہ نہیں رکھتے
میزان پہ شعروں کو نہ تولو کہ ابھی ہم
بحروں پہ پکڑ اتنی زیادہ نہیں رکھتے
رہتے ہیں وہی اڑتے ہیں مانندِ صبؔا جو
ہم فوج میں کوئی بھی پیادہ نہیں رکھتے
شاید
بحروں پہ پکڑ اتنی بھی زیادہ نہیں رکھتے
خوب😊😊