دور نارسائی

رشید ودود

پاکستان کے ‘معروف صحافی، اور ‘صاحب طرز کالم نگار، ہارون رشید صاحب کا ایک طویل انٹرویو دلیل پر شائع ہوا ہے، یہ انٹرویو دو قسطوں پر مشتمل ہے، دانیال احمد صاحب کا خیال ہے کہ ‘نئے اور پرانے لکھنے والوں کیلئے اس میں سیکھنے کا بہت کچھ سامان موجود ہے، لیکن اس سامان کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ نئے اسے سنبھال نہیں پائیں گے اور پرانوں کی کمر دہری ہو جائے گی اسے سنبھالتے سنبھالتے، دانیال صاحب سے ہمیں بھی اتفاق ہے لیکن آدھا، سیکھنے والے سیکھیں گے ضرور، لیکن غلط سیکھیں گے، ایسے سیکھنے سے کیا فائدہ؟
‘معروف صحافی، کے ‘اوصاف، بیان کرتے ہوئے عامر خاکوانی صاحب نے قلم توڑ دیا ہے، لیکن ‘معروف صحافی، کا ایک نمایاں وصف یہ بھی ہے کہ وہ تحقیق کے جویا ہیں، جو بھی لکھتے تحقیق سے لکھتے ہیں، چاہے اس کیلئے مسلسل دو ماہ تک وادئ تحقیق کی بادیہ پیمائی ہی کیوں نہ کرنی پڑے، اسی لئے جب وہ جنرل عبدالرحمن اختر پر ‘فاتح، لکھ رہے تھے، اسی دوران ‘قاضی حسین احمد نے کہا کہ جنرل اختر عبدالرحمن قادیانی تھے،
‘معروف صحافی، ‘تقریباً دو ماہ تک مخمصے کا شکار، رہے، ‘اس سلسلے میں معلومات حاصل، کرتے رہے، لیکن بات جب مولانا آزاد کی آئی تو ‘معروف صحافی، تحقیق کے سارے آداب بھول گئے، کوئی معلومات نہیں، کوئی تحقیق نہیں، بس بول دیا کہ ‘مجھے یقین ہے، اور یہ ‘یقین، کسی ایرے غیرے کا نہیں ہے، بلکہ ‘فسوں ساز قلم، کے مالک ایک ‘صاحب طرز کالم نگار، کا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ ‘صاحب طرز کالم نگار، اگر گپ بھی ہانک دے تو ‘دلیل، والے اسے وحی کا درجہ دے دیتے ہیں، اسی لئے تو اسے پوری سعادت مندی سے شائع بھی کر دیا گیا، کوئی ادارتی نوٹ نہیں، کوئی تحقیق نہیں، اس لئے کہ انٹرویو ایک ‘معروف صحافی اور صاحب طرز کالم نگار، کا تھا اور وہ اسم با مسمی ‘دلیل، میں شائع ہو رہا تھا تو پھر دلیل کی کیا ضرورت؟ اوٹ پٹانگ جو بھی شائع کر دیجئے، سب چلے گا-
‘معروف صحافی، نے اپنے انٹرویو میں ‘ترجمان القرآن، کے انتساب پر شک و شبہے کا اظہار کیا تھا، نایاب حسن نے فورا ثبوتوں اور گواہوں کے ساتھ مولانا کے انتساب پر اپنی تحقیق پیش کی، اور اس مرد حر کا نام آشکارہ کیا تو ہمارے دوست عامر ہزاروی صاحب نے یہ نایاب تحقیق ‘معروف صحافی، کے حضور پیش کی، مجھے خوشی ہے کہ ‘معروف صحافی، نے بڑپن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی غلطی تسلیم کی اور معافی کے طلب گار ہوئے، دلیل نے بھی نایاب کا مضمون شائع کر کے اپنے تیئں ‘کفارہ، ادا کر دیا ہے-
مولانا آزاد ابن تیمیہ کے جیسے عاشق زار ہیں، یہ سب کو پتہ ہے، تذکرہ میں ابن تیمیہ کے بارے میں جس ذوق و شوق سے مولانا آزاد نے لکھا ہے، وہ پڑھنے ہی سے تعلق رکھتا ہے، مولانا صرف ابن تیمیہ ہی کے نہیں، ان کے شاگرد ابن قیم کے بھی مداح ہیں، اسی لئے مولانا کو جب پتہ چلا کہ اعلام الموقعین کا اردو ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی نے کیا ہے تو انہوں نے بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا تھا، بہرکیف جب حکیم فضل الرحمن سواتی ثم آمبوری کو پتہ چلا کہ مولانا یوسف کوکن عمری نے ‘ابن تیمیہ، کی سوانح لکھی ہے تو انہیں مولانا آزاد بہت یاد آئے کہ آج وہ ہوتے تو عمری صاحب کی اس تصنیف کو دیکھ کر کتنا خوش ہوتے، کوکن صاحب کے نام حکیم صاحب اپنے خط میں ایک رو میں بہتے چلے گئے، ترجمان القرآن کے انتساب کا انکشاف کیا، مولانا دین محمد قندھاری سے اپنے تعلقات اور ان کی زندگی کے بارے میں بتایا، کوکن صاحب نے یہ خط دسمبر 1959 کے ‘برہان، (دہلی) میں شائع کرایا، بعد میں برہان سے دوسرے اخبارات و رسائل نے بھی اس خط کو نقل کیا، بعد میں اسحاق بھٹی صاحب نے اس پورے خط کو ‘بزم ارجمنداں، میں یکجا کر دیا، ہارون صاحب مطالعے کے رسیا ہیں، تحقیق کے خوگر ہیں، حیرت ہوتی ہے کہ جو بات ‘ابوالکلامیات، کے ایک ادنی ترین طالب علم کو بھی معلوم ہے، ہارون صاحب اس سے لاعلم ہیں-
ہارون صاحب نے مولانا آزاد کی مشکل پسندی کا بھی رونا رویا ہے، آزاد کے اسلوب پر انہوں نے جو کچھ بھی کہا ہے، وہ مشتاق یوسفی کا چربہ ہے، جب رشید حسن خاں جیسا ماہر لسانیات آزاد کے اسلوب کے ساتھ انصاف نہیں کر سکا تو پھر ہارون صاحب کی کیا حیثیت ہے؟ آزاد کے اسلوب پر بابائے اردو، شیخ اکرام، رام بابو سکسینہ اور رشید حسن خاں وغیرہ نے اعتراض کیا ہے، ہارون صاحب پہلے ان معترضین کو پڑھ کر کے کم از کم اعتراض کا سلیقہ تو سیکھ لیں-
ہارون صاحب نے غبار خاطر کے ایک اندراج پر اعتراض کیا ہے لیکن یہ اعتراض اس قدر بھونڈا ہے کہ ابولکلامیات کا ایک ادنی ترین طالب علم بھی ہارون صاحب کے اس بھونڈے اعتراض پر زیر لب مسکرائے بنا نہیں رہ پائے گا، سید سلیمان ندوی صاحب کو مولانا آزاد کے سفر عراق پر شبہ تھا لیکن اس کی تصدیق ممتاز فرانسیسی مستشرق لوئی مسینو اور نواب حبیب الرحمان خاں شیروانی نے کی، لیکن ہارون صاحب کا اعتراض دیکھئے اور سر دھنئے-
ہارون صاحب نے ایک لطیفہ سنایا ہے کہ وہ مولانا آزاد کے قائل نہیں، یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے عبدالرشید کہے کہ وہ ہارون صاحب کا قائل نہیں، ہارون صاحب کے سامنے کیا حیثیت ہے رشید کی؟ ایسے ہی ہارون صاحب کی کیا حیثیت ہے مولانا آزاد کے سامنے، کجا راجہ بھوج؟ کجا ننوا تیلی؟ ہارون صاحب نہایت ہی درشت لب و لہجے میں سوال کرتے ہیں کہ مولانا حسین احمد مدنی نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے؟ یہی سوال ہمارا بھی ہارون صاحب سے ہے کہ حضور! کس حیثیت سے آپ یہ سوال کر رہے ہیں؟ ملک و ملت کیلئے آپ نے کون سے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں؟ کتنی تصنیفات ہیں آپ کی؟ یاللعجب! آج ایک تیسرے درجے کا لفافہ صحافی کھ رہا ہے کہ وہ مولانا آزاد کا قائل نہیں، حالانکہ ظفر علی خان، غلام رسول مہر اور شورش کاشمیری جیسے ممتاز صحافی مولانا آزاد کے قائل ہیں-
ہارون صاحب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کے بڑے مداح ہیں، لیکن یہ کیسے مداح ہیں کہ انہیں خود اپنے ممدوح کی بھی خبر نہیں، مولانا اصلاحی تو مولانا آزاد کے ایسے مداح تھے کہ انہیں کئی سو دماغوں کا نچوڑ کہتے تھے، ماہرالقادری جیسے چھٹ بھیئے صحافی جب پردہ گرا اور اٹھا رہے تھے، اس وقت مولانا اصلاحی نے مولانا آزاد کے علم و فضل کا قصیدہ پڑھا تھا اور آج انہیں کے ایک مداح کھ رہے ہیں کہ وہ مولانا آزاد کا قائل نہیں-
تفو برتو ای چرخ گردون تفو۔

آپ کے تبصرے

3000