سوشل میڈیا کے عجائب میں سے ایک عجوبہ یہ بھی ہے کہ اس نے بہتیرے خوردوں اور ناکاروں کو بھی اصحاب قلم بنا دیا ہے، جہاں ایک تحریر گردش میں آئی صاحب نے اسے کاپی کیا، نیچے سے اصل کاتب کا نام دودھ سے مکھی کی طرح نکال دیا اور اپنا نام یوں ثبت کر دیا جیسے ان کی اپنی جاگیر ہو، یا زیادہ دیانت دار واقع ہوئے تو صرف قلم کار کا نام حذف کرکے تحریر آگے بڑھا دی، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پہلی نظر میں معلوم ہوگا کہ تحریر ناقل ہی کی ہے، قاری اسے پڑھ کر موصوف کے تبحر علمی پر عش عش کرے گااور اس کی وسعت مطالعہ کا گرویدہ ہو جائے گا، اگر کسی نے اصل تحریر پہلے پڑھی ہے اور ناقل کی گرفت کی کوشش کی کہ صاحب یہ تو فلاں قلم کار کی تحریر ہے، تو حضرت ناقل پھٹ سے جواب دیں گے کہ میں نے کب کہا کہ میری تحریر ہے، میں نے تو بس شیئر کیا ہے، اس طرح سانپ بھی مر جاتا ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی۔
علمی چوری کا یہ سلسلہ سوشل میڈیا کے توسط سے دراز ہوتا جا رہا ہے، ایک شخص دن رات ایک کر کے لکھتا ہے، کتابوں کی چھان مارتا ہے، صفحات کھنگالتا ہے، مواد تلاش کرتا ہے، لائبریری کے چکر لگاتا ہے، اپنے تجربات کی روشنی میں نتیجہ مستنبط کرتا ہے، اپنے قلم کو مطالعہ کی بھٹی میں تپاتا ہے، پھر دوسرا شخص اس کی ساری محنت اور تگ ودو پر یک قلم پانی پھیر دیتا ہے، پورا کا پورا مضمون من وعن اپنے نام سے نقل کر کے بزعم خویش قلم کار، نثر نگار، کاتب بن بیٹھتا ہے، سچ کہا اللہ نے ”یحبون أن یحمدوا بما لم یفعلوا“(آل عمران:۱۸۸)وہ لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کاموں پر ان کی تعریف کی جائے جو انھوں نے انجام ہی نہیں دیے ہیں۔
حافظ محمد ادریس ”علمی چوری“ نامی کالم میں لکھتے ہیں:
”دنیا کے بڑے بڑے علماء اور قلم کاروں کے شہ پارے ادبی سارقین کی دست برد کا شکار ہوتے رہے مگر اب تو عالم یہ ہے کہ معمولی قسم کے لکھاری بھی ایسے مہربانوں کی زد میں ہیں، سرقہ کا جرم کیسے سرزد ہوتا ہے؟ اس کا سادہ اور کم ترین طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی ”دانشور“ کسی ادیب یا مصنف کی تحریر میں سے کوئی چھوٹا موٹا اقتباس اپنی تحریر میں نقل کر لیتا ہے۔ اس کا نہ کوئی حوالہ دیتا ہے نہ اصل مصنف کا تذکرہ کرتا ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اسی دانشور کے رشحات قلم ہیں۔ یہ اگر چہ جرم ہے مگر کسی حد تک قابل معافی ہے۔ ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کسی تحریر کو سیاق و سباق سے کانٹ چھانٹ کر، کچھ سابقے، لاحقے کا اضافہ کر کے اپنے نام سے لوگ چھاپ دیتے ہیں، یہ جرم ہے اور ناقابل معافی۔ایسے قلم کاروں کو عموما ”قینچی ادیب“ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ دوسروں کی تحریروں کی کتر بیونت کرتے اور ادیب بن جاتے ہیں، قینچی ادیبوں سے زیادہ بڑے مجرم ”استرا ادیب“ کہلاتے ہیں، یہ کسی کی پوری تحریر من وعن بغیر ذرہ برابر ترمیم وحذف کیے اپنے نام سے منسوب کر لیتے ہیں۔ یہ واقعی بڑے ”دلیر چور“ ہوتے ہیں۔ جرم کی سزا تو اپنی جگہ مگر اس دیدہ دلیری پر ان کی بلائیں لینے کو جی چاہتا ہے۔“ (علمی چوری از حافظ محمد ادریس مطبوعہ روزنامہ خبریں لاہور، یکم فروری۱۰۰۲ء)
سرقے کی تاریخ کافی قدیم رہی ہے، چوتھی صدی ہجری کے سرقات دیکھنے ہوں تو ابن ندیم کی الفہرست پر نظر ڈالیں، مصنف نے اپنے عہد کے سرقات کا تفصیلی ذکر کیا ہے، یہ کتاب اردو میں بھی موجود ہے، مولانا محمد اسحاق بھٹی نے اسے اردو کا قالب پہنایا ہے۔ڈاکٹر نجم الاسلام ابن ندیم کے بارے میں لکھتے ہیں: ”کتابوں میں جعل سازی کی نشان دہی کے بارے میں ابن ندیم خاصا مستعد ہے، کون سا جزو اصل مصنف کی تصنیف ہے، کون سے حصے وارداتوں کی جعل سازی ہیں؟ جعل سازی میں کس نے پہل کی، کون شریک تھا اور کتاب کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ غرض کہ وہ سب پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔“ (تحقیق اور اصول وضع واصطلاحات پر منتخب مقالات، مرتبہ اعجاز راہی،ص۵۵۱)
فراق گورکھپوری کے بارے میں منقول ہے کہ ایک مشاعرہ میں ایک نوخیز شاعر بڑے مزے لے لے کر فراق صاحب کی غزل اپنے نام سے سنا رہا تھا، فراق نے پوچھا کہ صاحب زادے یہ کیا ہے؟ فرمانے لگے کہ خیال سے خیال ٹکرا گیا ہے، فراق بول اٹھے، سائیکل کی سائیکل سے ٹکر تو سنی تھی، لیکن سائیکل ہوائی جہاز سے ٹکرا جائے ایسا پہلی بار سنا ہے۔
خامہ بگوش نے ”ا دبی سرقہ“ کے عنوان سے ایک طویل مضمون قلمبند کیا ہے جس میں آغا اشرف کی ڈاکٹر یوسف حسین کی کتاب سے چوریوں کا ذکر کرنے کے بعد بڑے دلچسپ انداز میں پھبتی کسی ہے:
”یہ عجیب اتفاق ہے کہ ڈاکٹر یوسف حسین خان”سوربون“کے جس مکان میں رہتے تھے ایک طویل عرصے بعد اسی مکان میں آغا صاحب کو بھی قیام کا موقع ملا، جن الفاظ میں ڈاکٹر صاحب نے کھڑکی سے نظر آنے والا منظر بیان کیا ہے انھی الفاظ میں آغا صاحب نے بھی منظر نگاری کی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس مکان کو خالی کرتے وقت ڈاکٹر صاحب نے اپنے سامان کا کچھ حصہ (الفاظ، جملے، تاریخی معلومات وغیرہ) یہیں چھوڑ گئے تھے۔ یہ سامان بعد میں آغا صاحب کے کام آیا اور خوب کام آیا۔“(خامہ بگوش کے قلم سے، مرتبہ مظفر علی سید،ص:۳۳۳)
تالیف و تصنیف کی دنیا سے شغف رکھنے والے حضرات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کس طرح سے ایک شخص سے اجرت پر کتابیں لکھوائی جاتی ہیں اور پھر اسے کسی دوسرے کے نام سے شرف اشاعت بخشا جاتا ہے، اگر اس پر اعتراض وارد ہوتا ہے تو یہ کہہ کر اس کا منہ بند کرادیا جاتا ہے کہ آپ کا حق محنتانہ ادا کر دیا گیا ہے، اس لیے اس سے مزید کی اور کوئی گنجائش نہیں ہے، تصنیفی دنیا کی اس مارکیٹنگ نے کتنے ناخواندوں تک کو قلم کار بنا دیا، وہ لوگ جن کا املا اور تلفظ تک درست نہیں وہ بھی صاحب کتاب ہو گئے، جنھیں مضمون نگاری کے ہجے سے آشنائی نہ تھی ان کے پاس مضامین نو کے انبار آنے لگے، اگر اس سلسلے کو دراز کیا گیا اور اس میں چھان بین کی گئی تو بہت ساری پگڑیاں زمین بوس ہو جائیں گی، تقدس کے بڑے بڑے ہالے بکھر جائیں گے، قبائیں چاک چاک ہوں گی اور جبہ ودستار کی زناری اظہر من الشمس ہو گی، افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ علم دین سے شغف رکھنے والے اور کتاب وسنت پڑھنے پڑھانے والوں میں سے بہتیرے طلبہ وعلما کے بھی دامن داغ دار ہیں ؎
وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی
میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے
”فن انشا پردازی“ کے مصنف ڈاکٹر محی الدین قادری زور لکھتے ہیں:
”نومشق انشاء پردازوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جن مضمونوں میں حوالے نہیں ہوتے سمجھ دار لوگ اور اہل ذوق خیال کرتے ہیں کہ ان کے لکھنے والے غیر معتبر ہیں اور انھیں اپنے علم اور ماخذوں پر اعتماد نہیں ہے۔ بے حوالہ مضمون وقتی دلچسپی اور ناپائدار کشش رکھتا ہے۔ اس میں زندگی کی طاقت نہیں ہوتی اور کوئی شخص اس کو ایک سے زیادہ دفعہ پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔“(فن انشا پردازی از ڈاکٹر محی الدین قادری زور،ص:۲۸)
اس وقت اشد ضرورت ہے کہ اس گھناؤنے عمل کے خلاف سوشل میڈیا کے توسط ہی سے تحریک چھیڑی جائے، علمی چوروں کے خلاف محاذ کھولا جائے، جہاں کہیں بھی ان کے سرقات پر نظر پڑے سخت محاسبہ کیا جائے،انھیں بالکل بھی بڑھاوا نہ دیا جائے اور نہ ہی اس عمل شنیع کو نظر انداز کیا جائے، انھیں سمجھایا جائے کہ چوری صرف مال ہی کی نہیں ہوتی، الفاظ، جملوں، مضامین، اشعار کی چوری بھی کسی طرح سے کم نہیں ہے،امام ابن عبد البر رحمہ اللہ کا قول ہے کہ: ”إن من برکۃ العلم أن تضیف الشیء إلی قائلہ“(ابو عمر، جامع بیان العلم و فضلہ،۲/۲۲۹) کسی قول کو اس کے قائل کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا علمی برکت ہے۔
”اردو ادب میں سرقہ اور جعل سازی کی روایت“ کے مصنف پروفیسر نذر خلیق مذکورہ کتاب کے مقدمے میں چند تجاویز پیش کرتے ہیں جو قابل غور ہیں اور اسی اقتباس کے ساتھ اس مضمون کا اختتام کیا جاتا ہے:
(۱)جعل سازی اور سارق کی حوصلہ شکنی کرنا چاہیے۔
(۲)سماجی اور معاشرتی سطح پر ایسے لوگوں کا مقاطعہ کرنا چاہیے۔
(۳)جعل سازوں اور سارقین کی اعلی ترین ڈگریاں منسوخ کر دینا چاہیے۔(اردو ادب میں سرقہ اور جعل سازی کی روایت از نذر خلیق، ص:۳)
.
بہت صحیح آپ نے لکھا ماشاءاللہ