کیا اہل حدیث وہابی ہیں؟

عبدالاحد احسن جمیل آل عبدالرحمن تنقید و تحقیق

انگریزوں کے دور حکومت سے متعصبین اہل مذہب نے عاملین بالکتاب والسنۃ کو وہابیت کا خطاب ناصواب دے رکھا ہے، جو کہ انگریزوں نے اس پہچان کے لیے اختراع کیا تھا کہ جانیں کہ کون ان کا ہم مشرب اور حامی ہے اور کون اصل ہندوستانی ہے اور صحیح معنوں میں ہندوستان کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرانے کا خواہاں ہے اور اس کی سعی کر رہا ہے، ان متعصبین اہل مذہب نے بھی ان کا ساتھ دیتے ہوئے عاملین بالکتاب والسنہ کو ایذا رسانی کی غرض سے اپنے زعم باطل میں اس کی ابتدا وانتساب شیخ محمد بن عبد الوھاب علیہ الرحمہ سے قرار دی ہے۔ حالانکہ اہل حدیث نہ تو وہابی ہیں اور نہ ہی اپنا انتساب محمد بن عبد الوھاب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کرتے ہیں، محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ کی دعوت توحید کا بول بالا اور شرک وبدعات کا خاتمہ تھا اس طرح سے اگر کوئی کہے کہ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ کی دعوت اور اہل حدیثوں کی دعوت ایک ہے، اور اس طرح یکسانیت پیش کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اور جو لوگ نجد واطراف نجد میں محمد بن عبد الوھاب رحمۃ اللہ علیہ سے ہم خیالی کا تعلق رکھتے ہیں وہ بھی وہابی نہیں ہیں بلکہ حنبلی ہیں۔ جیسا کہ محدث حسن بن غنام نے ان کے حالات میں بیان کیا ہے، اور لکھا ہے کہ یہ لوگ مطابق عقیدہ جماہیر اہل سنت والجماعت ہیں۔ (تفصیل کے لیے مراجعہ کریں:تاریخ نجد از حسن غنام)

وہابی کون اور کب سے؟(اس موضوع پر ایک مختصر مقالہ علامہ محمد ابو القاسم سیف بنارسی رحمہ اللہ نے تحریر فرمایا تھا جو “أخبار اہل حدیث امرتسر” میں۱۹۲۴ م کی فائل میں شائع ہوا تھا)

وہابیہ قدیم زمانہ میں خارجیوں کا ایک فرقہ تھا جو کہ اہل سنت کا سراسر مخالف تھا۔ اور اس کا وجود حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت سے شروع ہوا۔ جیسا کہ مشہور مؤرخ علامہ ابن خلدون اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:
“ثم فشت دعوة الإباضيّة والصّفريّة منهم في هوارة ولماية ونفزة ومغيلة وفي مغراوة وبني يفرن من زناتة”.
وقال: “ففي بلاد زناتة بالصحراء منها أثر باق لهذا العهد في قصور ربع وواديه، في مغراوة من شعوب زناتة ويسمّون الراهبية نسبة إلى عبد الله بن وهب الراهبي. أوّل من بويع منهم أيام عليّ بن أبي طالب. وكان بنواحي البحرين وعمان إلى بلاد حضرموت وشرقي اليمن ونواحي الموصل آثار تفشي وعروق في كل دولة، إلى أن خرج عليّ بن مهدي من خولان باليمن ودعا إلى هذه النحلة. وغلب يومئذ من كان من الملوك باليمن واستلحم بني الصليحيّ القائمين بدعوة العبيديّين من الشيعة وغلبوهم على ما كان بأيديهم من ممالك اليمن، واستولوا أيضا على زبيد ونواحيها” (ديوان المبتدأ والخبر في تاريخ العرب والبربر ومن عاصرهم من ذوي الشأن الأكبر, “المعروف ب” تاريخ ابن خلدون: ۳؍۲۱۳۔۲۱۴)

پھر اباضیوں اور صفریوں کی دعوت ھوارۃ، لمایہ، نفرہ، مغیلہ، مغراوہ اور زنانہ میں سے بنی یفرن میں پھیل گئی۔

اور کہتے ہیں: زنانہ کے صحراوی علاقہ میں رابع اور ودادیہ کے محلوں میں آج بھی ان کے آثار باقی ہیں،مغراوہ میں زنانہ کے قبائل کو اس کے مؤسس عبد اللہ بن وھب کی طرف منسوب کرتے ہوئے وھبیہ کہا جاتا ہے جس کے ہاتھ پر سب سے پہلے علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان کی مخالفت پر بیعت ہوئی، اور یہ لوگ بحرین کے اطراف اور عمان ویمن کے مشرقی حصہ اور موصل تک پھیلے اور تمام ملکوں میں ان کے ہم مشرب وہم معنی لوگ پائے گئے، یہاں تک کہ علی بن مہدی یمن کے شہر خولان سے ظاہر ہوا اور اپنے اسی عقیدے کی طرف دعوت دی۔ یمن کے تمام حکام پر غالب ہو گیا اور بنو صلیحی عبیدی شیعی دعوت کے علمبردار سے جنگ کا مطالبہ کیا اور ان کی ریاست پر غالب ہو گیا ساتھ ہی زبید اور اس کے گرد ونواح پر بھی قبضہ کر لیا۔

امام لخمی سےان وھبیہ کے بارے میں پوچھا گیا جو اہل سنت والجماعت کے بیچ میں رہنے لگے ہوں؟ تو اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ: یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں قرآن پڑھتے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے یہ خوارج ہیں، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ خوارج سب سے برے لوگ ہیں، اور نبی ﷺ نے بھی ان سے آگاہ کیا ہے اور ان سے ہوشیار ہنے کی تاکید کی ہے۔(دیکھیں: المعیار المعرب از ونشریسی: ۱۱/۱۶۸۔۱۶۹)

فرد بل اپنی کتاب “الفرق الإسلامية في الشمال الإفريقي”(ص: ۱۴۰ سے ۱۵۲ تک) میں کہتا ہے:

“عبد الوهاب بن رستم هذا الذي سميت فرقته بالوهابية نسبة إليه”۔ یعنی وھابیہ عبدالوھاب بن رستم کا فرقہ جو اسی کی طرف منسوب ہے (یہی بات آزاد انسائیکلو پیڈیا (ویکی پیڈیا میں) ان کے متعلق درج ہے)

اسی کی تائید زرکلی نے اپنی کتاب (الاعلام:۴/۳۳۳، اور اس کے بعد) میں بھی کی ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیں کتاب:تصحیح خطأ تاريخي حول الوهابية: از ڈاکٹر محمد سعد شویعر)

یہ اور اس جیسے لاتعداد ایسے ثبوت اور حوالے موجود ہیں جو دلیل ہے کہ اہل حدیث یا عاملین کتاب وسنت یا ہندوستان کے عاملین بالحدیث جو کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے پیرو، خلفاء راشدین اور صحابہ کی روش پر چلنے والے ہیں انھی میں سے شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ بھی ہیں۔ وہ وہابی نہیں ہیں، وہابی تو عبدالوھاب بن رستم کے ایجاد کردہ فرقہ کا نام ہے۔

وہابی کسی بھی حال میں اہل حدیث نہیں ہوسکتے، اہل حدیث تو دور کی بات وہ تو اہل سنت والجماعت میں سے نہیں ہیں بلکہ ان میں سے ہیں جن کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ:(قرآن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا)،یہ حدیثوں کو ٹھکرا دیں گے، وغیرہ۔

کیونکہ ان کا اصول ہے مسلمانوں کی جماعت سے نکلنا اور اہل سنت والجماعت کا اصول ہے ان کی جماعت کو لازم پکڑنا تو دونوں میں دن رات جیسا فرق ہے۔

اب ہم اہل حدیث کی چند صفات اور ان کی فضیلت ذکر کرتے ہیں جس سے یہ بات اور زیادہ واضح ہوجائے گی کہ اہل حدیث وہابی نہیں ہیں، اور نہ ہی ان میں کسی طرح کا کوئی اتفاق ہے، بلکہ وہابی، خوارج کی جماعت اباضیہ کا ایک فرقہ ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا۔

اہل حدیث کب سے ہیں:

اہل حدیث زمانہ نبوی سے ہیں جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ “میں پہلا اہل حدیث ہوں۔” (دیکھیں:سیر أعلام النبلاء از ذھبی: سیرۃ أبوھریرہ) غالبا اسی جرم میں ان حضرات نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ بنا دیا جیسے اہل حدیث کو لا مذہب۔ {وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ}(الشعراء: ۲۲۷)

اہل حدیث ایک صفاتی نام ہے جو قرون اولی سے آج تک چلا آ رہا ہے اور یہ وہی جماعت ہے جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ» (سنن ابن ماجہ: المقدمہ، باب اتباع سنۃ رسول اللہ ﷺ، حدیث:۶۔ یہ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں، سنن ترمذی: أبواب الفتن، باب ما جاء فی الشام، حدیث: ۲۱۹۲ ۔ اور اس حدیث کی سند صحیح ہے) میری امت میں قیامت تک ایک ایسا گروہ رہے گا جسے اللہ تعالی کی مدد حاصل رہے گی، جو انھیں چھوڑ دے گا وہ اسے کچھ بھی نقصان نہ پہنچائے گا۔

امام علی بن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “هم أصحاب الحديث”(سنن ترمذی: أبواب الفتن، باب ما جاء فی الشام)،یعنی یہ (مدد کی گئی جماعت) اہل حدیث ہے۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں کہ: اگر یہ گروپ اہل حدیث کے علاوہ ہے تو میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہے(معرفۃ علوم الحدیث از: حاکم: ۲)۔ یعنی یہ وہی اہل حدیث لوگ ہی ہیں۔

امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں: “يعني أهل الحديث”(سنن ترمذی: أبواب الفتن، باب ما جاء فی الشام، اور: مسألۃالاحتجاج بالشافعی للخطیب: ص: ۴۷)،یعنی یہ اہل حدیث ہیں۔

امام ابن حبان نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے: “ذكر إثبات النصرة لأصحاب الحديث إلى قيام الساعة” (صحيح ابن حبان:۱/۲۶۱) یعنی قیامت تک اہل حدیث کی مدد کے ثبوت کا ذکر۔

ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: “اہل حدیث وہ لوگ ہیں جو حدیثوں پر عمل کرتے ہیں، ان کا دفاع کرتے ہیں اور ان کے مخالفین کا قلع قمع کرتے ہیں۔”(صحیح ابن حبان: ۶۱۲۹)

بدعتی کی پہچان:

امام احمد بن سنان الواسطی رحمہ اللہ بدعتی کی پہچان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “ليس في الدنيا مبتدع إلا وهو يبغض أهل الحديث”(معرفۃ علوم الحدیث از: حاکم:۶) دنیا میں کوئی بھی بدعتی نہیں ہوگا مگر وہ اہل حدیث سے بغض رکھے گا۔

امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “إذا رأيت الرجل يحب أهل الحديث … فإنه على السنة”(شرف أصحاب الحدیث از خطیب بغدادی: (ص: ۱۳۴)، حدیث: ۱۴۳، اور اس کی سند صحیح ہے)،اگر تو کسی آدمی کو دیکھے کہ وہ اہل حدیث سے محبت کرتا ہے ۔۔۔تو (سمجھ لے کہ) وہ شخص سنت پر چل رہا ہے۔

یعنی جب کسی کو دیکھو کہ وہ اہل حدیث سے بغض کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ سنت پر نہیں ہے اور جب سنت پر نہیں ہوگا تو بدعت پر ہوگا۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ اہل حدیث سے بغض رکھنے والوں کو شیطان سے یاری کی بشارت سناتے ہوئے کہتے ہیں: “اے اہل حدیث سے بغض رکھنے والے اور گالیاں دینے والے، تجھے شیطان سے دوستی اور یاری قائم کرنے کی بشارت ہو۔”(نونیہ)

اہل حدیث کیسے لوگ ہیں:

امام حفص بن غیاث رحمہ اللہ اس سوال کا جوب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: “هم خير أهل الدنيا”(معرفۃ علوم الحدیث از: حاکم: (ص: ۳) اور اس کی سند صحیح ہے) وہ دنیا میں سب سے بہترین لوگ ہیں۔

امام شافعی رحمہ اللہ اس بارے میں کہتے ہیں: “إذا رأيت رجلا من أصحاب الحديث فكأني رأيت رسول الله ﷺ حيا”(شرف أصحاب الحدیث، از خطیب بغدادی: ص: ۹۲، حدیث: ۸۵، اور اس کی سند صحیح ہے) جب میں کسی اہل حدیث شخص کو دیکھتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کہ نبی کریم ﷺ کو زندہ دیکھ لیا۔

یہ اقوال جہاں اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ اہل حدیث عہد نبوی سے ہیں اور وہی کامیاب ہونے والے بہترین لوگ ہیں وہیں اس بات کی گواہی ہے کہ اس جماعت کا صفاتی نام اہل حدیث ہے، جس طرح نبی ﷺ نے طائفہ منصورہ اور فرقہ ناجیہ وغیرہ نام رکھا ہے۔

یہاں ان لوگوں کا بھی جواب ہوگیا جو پوچھتے ہیں کہ کیا اپنے آپ کو صرف مسلمان کہنا چاہیے یا اس کے ساتھ سلفی یا اہل حدیث لگانا چاہے تو یہ بات واضح ہوگئی کہ نبی کریم ﷺ نے ہمارا نام طائفہ منصورہ اختیار کیا ہے جس کو صحابہ کرام اور محدثین نے ایک وصف دیتے ہوئے اہل حدیث سے اس کا معنی بیان کیا ہے، اس لیے دور حاضر میں اپنے آپ کا استثنا کرنے کے لیے مسلمان کے ساتھ اہل حدیث لگانا ضروری ہے۔

اب یہ بات بالکل روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ اہل حدیث کا وہابیہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور نہ ہی اہل حدیث وہابی کبھی تھے اور کبھی ہو سکتے ہیں، اہل حدیث اول روز سے ہیں جیسا کہ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے اپنے قول سے واضح کیا اور قیامت تک باقی رہیں گے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی حدیث میں واضح کیا۔

وباللہ التوفیق

آپ کے تبصرے

3000