کتابوں سے محبت کب ہوئی، کیسے ہوئی، کیوں ہوئی، اس کی داستان طولانی ہے، فی الوقت اتنا ہی جان لیجئے کہ ‘مرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں، بعض اوقات تو ساحر لدھیانوی اور امرتا پریتم والی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے-
مرے پلنگ پر بکھری ہوئی کتابوں کو
ادائے عجز و کرم سے اٹھا رہی ہو تم
سہاگ رات جو ڈھولک پہ گائے جاتے ہیں
دبے سروں میں وہی گیت گا رہی ہو تم
میرے شبستاں سے بہشت متصل ہو یا نہ ہو لیکن لائبریری ضرور متصل رہی ہے، طالب علمی کے زمانے میں میرے شب و روز کتابوں ہی کیلئے مختص تھے، آج بھی یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے، میں بیوی کے بغیر تو تھوڑی دیر کیلئے رہ سکتا ہوں لیکن کتابوں کے بغیر مجھے یہ دنیا ادھوری سی لگتی ہے، حالانکہ بیوی اور کتاب دونوں کا مطالعہ نئے نئے جہانوں کی سیر کراتا ہے-
آج جب کوئی طالب علم مجھ سے پوچھتا ہے کہ سر کیسے لکھوں؟ تو افسوس ہوتا ہے اس کے سوال پر، اس لئے کہ انہوں نے پڑھا نہیں لیکن وہ لکھنا چاہتے ہیں، ایسوں کو میرا مشورہ یہی ہے کہ پڑھو! اتنا پڑھو کہ پڑھتے پڑھتے خود کتاب بن جاؤ، اس کے بعد خیالات جب ذہن میں آبشار کی طرح ابلنے لگیں تو کاغذ قلم سنبھال کر لکھنا شروع کر دو، اب چاہے ہاتھ قلم ہوں یا نہ ہوں لیکن تمہیں حکایات خونچکاں لکھنا ہے تو لکھنا ہے، اب تمہیں جھک مار کر پرورش لوح و قلم کرنا ہے تو کرنا ہے، تم چاہو یا نہ چاہو، اب تمہارا قلم تمہارا نہیں ہے، تمہارے لوگوں کا ہے، اس لئے اب جو بھی لکھو، تپاک جاں سے لکھو، خون دل میں انگلیاں ڈبو کر لکھو، انگلیاں فگار ہوں تو ہوں لیکن تمہیں لکھنا ہے تو لکھنا ہے-
کاروبار کرتے کرتے جب تھک جاتا ہوں تو نکل لیتا ہوں کسی لائبریری کی طرف، گزشتہ سوم کا پورا دن اُس لائبریری میں گزرا، جس کی کتابوں نے لکھنے کا تھوڑا بہت شعور دیا، یہ لائبریری نہیں، کتابوں کا ایک بے کراں سمندر ہے، جہاں اچھے بھلے تیراک بھی بھول کر کسی اور جزیرے پر جا نکلتے ہیں، وہاں سے نکلا تو منگل کا پورا دن اہل علم کی صحبتوں میں گزارا اور شام ڈھلے اُس سے ملا، جس سے ملنے کی برسوں سے تمنا تھی، اُس شہر تمنا میں گیا، جہاں جانے کی اب بھی تمنا ہے-
2015 کے دسویں مہینے میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، یہ ملاقات سرسری تھی لیکن پہلی ہی ملاقات نے چونکنے پر مجبور کر دیا تھا، کچھ ناسمجھ ایسے ہیں، جو میرے لکھے پر سر دھنتے ہیں لیکن میں اُس کے لکھے پر سر دھنتا تھا، میں کیا، میری بساط کیا؟ لیکن جب میں نے دیکھا کہ اس کے لکھے پر اہل علم بھی جان ہار رہے ہیں تو پھر میں نے بھی جان ہار دیا، ‘سحر انگیز اسلوب، تنقیدی زبان کا لفظ نہیں ہے لیکن واللہ! اس کا لکھا ہوا اس قدر سحر انگیز ہوا کرتا ہے کہ جو اس نے لکھ دیا، وہ پھر امر ہو گیا، وہ لکھتا رہا، ہم پڑھتے رہے، کہیں کہیں اٹھا پٹخ بھی ہوئی لیکن پٹخے بھی ہم ہی گئے، بالآخر تھک ہار کے یارو! ہم نے بھی تسلیم کیا کہ اس کی نثر میں جو حسن ہے، جو جادو ہے، اس کا قصیدہ تو اب ہمیں پڑھنا ہی پڑھے گا، گرے پڑے لفظوں کو ہم نے اس کی نثر میں محترم ہوتے دیکھا ہے، اس کے فقرے چست اور لفظ اُس میں نگینے کی طرح جڑے ہوتے ہیں، مشکل اور خشک موضوعات پر بھی اس کے قلم نے وہ گل افشانئ گفتار کی کہ قارئین کے مشام جاں معطر ہو کر گئے، پھر ایک شام، جب سورج کے سائے ڈھل رہے تھے، ہم نے اس سے کہا کہ برادر عزیز! اب آ جاؤ فیس بک پر، یہاں تمہارے جیسے لکھنے والوں کی ضرورت ہے، پھر انکار و اصرار کا ایک سلسلہ چلا لیکن آخر کار انکار پر اصرار غالب آیا، عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب، بالآخر لفظوں کا وہ کھلاڑی ‘ابو اشعر فہیم، کے قلمی نام سے ہمارے سامنے آیا، چہ می گوئیاں ہونے لگیں کہ یہ غیرت ناہید کون ہے، جس کی ہر تان دیپک ہے، جس کی آواز میں شعلہ سا لپکتا ہے، وہ جب چاہے، جیسے چاہے، ان شعلوں پر شبنم کی پھوار کر سکتا ہے، وہ جب لبوں پر زہر خند سجائے طنز کے تیر برسا رہا ہوتا ہے تو اس کا نا ممدوح بھی بس پہلو بدل کر رہ جاتا ہے، آواز نہیں نکالتا، اب ابوبکر قدوسی بھی اس کی مداحی کا دم بھرتے ہیں اور شمیم ندوی صاحب بھی پوچھتے ہیں کہ ابو اشعر فہیم کون ہے؟
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
گنگا کے ساحل سے الٹا جب آپ راپتی کی طرف آیئں تو راستے میں عبداللہ غازی پوری کا ضلع پڑتا ہے، پھر اس کے بعد وہ وہ علاقہ شروع ہوتا ہے، جس کے بارے میں اقبال سہیل نے کہا تھا کہ
اس خطۂ اعظم گڈھ پہ فیضان تجلی ہے یکسر
جو ذرہ یہاں سے اُٹھتا ہے وہ نیرِ اعظم ہوتا ہے
گاندھی جینتی ہے، اس لئے اعظم گڑھ رکنے کا کوئی فائدہ نہیں لیکن نہیں رکئے، مبارک پور جانے میں فائدہ ہی فائدہ ہے، اس چھوٹے سے قصبے نے ایسے ایسے لعل و گہر پیدا کئے، جن کی تابانی سے آج سارا جہاں روشن ہے لیکن اب یہاں کے چراغ ایک ایک کر کے بجھتے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے تاریکی بڑھتی جا رہی ہے لیکن نہیں، ایک چراغ ایسا بھی ہے، جو نہ صرف ہواؤں کے تھپیڑے سہ رہا ہے بلکہ اس کے وجود مسعود سے شبستاں بھی لرز رہے ہیں، خدا اس چراغ کو دیر تک جلتا ہوا رکھے، تاکہ اس کی روشنی پا کر گم گشتگان راہ منزل مقصود تک پہنچتے رہیں، ہماری مراد عبدالرحمن عبیداللہ مبارک پوری ہیں-
اب آیئے مئو ناتھ بھنجن چلتے ہیں، شمالی ہند میں شیراز علم کبھی جون پور کو کہا جاتا تھا، اب مئو کو کہا جاتا ہے، اس شہر علم میں کتابوں کی دکانیں کئی ایک ہیں لیکن سب سے نمایاں فہیم بک ڈپو ہے، اس کے مالکان دو بھائی ہیں، چھوٹے بھائی کا ذکر خیر سابقہ سطور میں ہو چکا ہے لیکن بڑے بھائی بھی سبحان اللہ ہیں، یہ چھوٹے بھائی کوئی اور نہیں، ہمارے ممدوح ابو اشعر فہیم ہیں، اصل نام عزیز الرحمان ہے لیکن آپ کی ملاقات پہلے بڑے بھائی شفیق الرحمان صاحب ہوگی، دونوں بھائی ایک دوسرے کی فوٹو کاپی ہیں، پانچ منٹ تک میں شفیق الرحمان بھائی کو ابو اشعر فہیم سمجھتا رہا لیکن پانچ منٹ کے بعد جب ابو اشعر فہیم سے ملاقات ہوئی تو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آنکھوں کو بجھا لوں یا حقیقت کو بدل دوں؟
شفیق الرحمان بھائی میری ‘تواضع، ایسے ہی کر رہے تھے، جیسے لائق و ذمے دار بڑا بھائی نالائق اور غیر ذمے دار بھائی کا کرتا ہے، خدا کا شکر ہے کہ ابو اشعر فہیم بھائی کو میری بے بسی پر رحم آ گیا، وہ مجھے مکتبہ دکھانے لے کر نکل گئے، یہ مکتبہ!!! اللہ اکبر! اس کی وسعت دیکھ کر میں دنگ رہ گیا، میرے کانوں میں مٹھو کا قول گونجنے لگا کہ مکان اپنے مکین کی وسعت نظری کا آئینہ دار ہوتے ہیں، یہاں کیا نہیں ہے؟ سب کچھ تو ہے، ادب و تنقید، فلسفہ و تاریخ، شعر و شاعری، سیر و سوانح، ترجمہ و تفسیر، حدیث، فقہ، درسیات، کلیات و دواوین اور ناولز کا ایک شاندار کلیکشن موجود ہے، میرے پاس صرف ایک گھنٹے کا وقت تھا، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ جی بھر کے دیکھوں یا خریدوں لیکن مکتبے کا مالک جب ابو اشعر جیسا مردم شناس ہو تو ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے، مردم شناسی کی ترکیب میں نے ابو اشعر کیلئے مروت میں نہیں استعمال کی ہے، ایک واقعہ سنیں، پھر آپ بھی قائل ہو ہو جایئں گے کہ واقعی ابو اشعر بھائی قاری کی نفسیات پر بڑی گہری نگاہ رکھتے ہیں اور نرے بنیا نہیں ہیں-
پچھلے سال ابو اشعر بھائی نے میرے پاس کتابوں کا ایک بنڈل بھیجا، اس بنڈل میں ایک بھی کتاب ایسی نہیں تھی، جسے دیکھ کر میں نے ناک بھوں چڑھایا ہو اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ کتابیں میرے پاس تھیں بھی نہیں، تو جب ایسا با ذوق مکتبے کا مالک آپ کی مدد کیلئے موجود ہو تو پھر گھنٹوں کا کام بھی منٹوں میں ہو جاتا ہے، ابو اشعر بھائی خود ہی میرے لئے کتابیں منتخب کرتے گئے، جن کی تفصیل آپ بل میں دیکھ سکتے ہیں-
میرے پاس بس ایک گھنٹے کا وقت تھا لیکن ایک گھنٹہ بھی شاید ساٹھ منٹ کا نہیں تھا، کب ختم ہو گیا، پتہ ہی نہیں چلا، ابو اشعر بھائی کتابیں منتخب کرتے جاتے تھے اور مجھے سمجھاتے جاتے تھے کہ اب تو اپنے اندر تھوڑی سی سنجیدگی پیدا کر لو، تمہاری شکل اور تمہاری تحریر میں کوئی مناسبت نہیں ہے، سنجیدہ مضامین لکھتے ہو تو اپنی عمر سے بڑے لگتے ہو (اس موقعے پر مٹھو نے دخل در گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس موقعے پر ‘اپنے منہ میاں مٹھو بننے، کا محاورہ یاد آ رہا ہے) مزاح لکھنے پر آتے ہو تو اول درجے کے ٹھرکی لگتے ہو، ایسا کرو دو آئی ڈی بنا لو تاکہ بھرم قائم رہے، تمہیں اپنی بات کہنے کا تھوڑا بہت سلیقہ تو ہے لیکن کب کس سے کون سی بات کہی جائے، بس یہیں مار کھا جاتے ہو اور یہ عیب بھی تمہارے اندر اسی لئے ہے کہ تمہیں اپنے ٹھرک سے محبت بہت ہے،
میں کان دبائے ابو اشعر بھائی کی باتیں سنتا رہا، کیا کہتا؟ سچ ہی تو کہہ رہے تھے لیکن میرا ٹھرک میرے لئے کمبل کی مانند ہو گیا ہے، میں اس کمبخت سے لاکھ پیچھا چھڑانا چاہوں، چھڑا نہیں پاتا-
ابو اشعر بھائی میرے لئے کتابیں ایسے پسند کر رہے تھے جیسے میرے لئے دلہنیں پسند کر رہے ہوں، ایک دولہا صرف چار دلہنوں کا شوہر ہو سکتا ہے لیکن یہاں تو چالیس کا لفڑا تھا، بڑی مشکل سے کتابوں کو چار جھولوں میں پیک کیا گیا، ایک جھولا اٹھا لایا، باقی کے تین بھی ان شاءاللہ جلد پہنچ جائیں گے، پیسے دینے لگا تو کہنے لگے کہ یار پیسے اپنے پاس رکھو، سفر میں ہو، بعد میں دیتے رہنا لیکن ایک مرشد ہیں، میرے اوپر ذرا بھی اعتبار نہیں کرتے، پہلے پیسہ لیتے ہیں، پھر میرے لئے کتابیں خریدتے ہیں، خدا مرشد کے دل میں میرے لئے مروت پیدا کرے، دعا سن کر مرشدہ نے چیخ کر کہا کہ ظالم! میرے لئے بھی یہی دعا کر دے-
خدا ابو اشعر فہیم کو خوش رکھے، انہیں دنیا و جہان کی ترقی دے، زیادہ سے زیادہ کتابیں چھاپنے کی توفیق دے، ایک عدد جورو اور دے، کھانچی بھر بچے دے-
پس نوشت:- جس شخصیت کا ذکر خیر مجھے سب سے پہلے کرنا تھا، ان کا ذکر سب سے بعد میں کر رہا ہوں، مکتبہ فہیم کے سامنے جب ہم گاڑی سے اترے تو سفید کرتا، سفید لنگی پہنے ایک صاحب ہماری رہنمائی کیلئے موجود تھے، بعد میں پتہ چلا کہ یہ تو اپنے عبدالرحمن بھائی ہیں، عبدالرحمن بھائی سے ہماری یاد اللہ اُس وقت سے ہے، جب ہم بھی دبستان کے ممبر ہوا کرتے تھے لیکن ملاقات آج ہوئی، ہنستا لیکن سنجیدہ چہرہ، چہرے پر علم و عمل کا نور، آواز مدھم، موسیقی کا ردھم لئے ہوئے، جامعہ عالیہ عربیہ میں استاذ ہیں، استاذ ایسے کہ ان کے دو شاگرد ہماری بستی کے ہیں، شاگرد ایک بے رحم نقاد ہوتا ہے، اگر استاذ میں خوبی ہے تو اس کا اعتراف کرتا ہے اگر خامی ہے تو ببانگ دہل اسے بتاتا بھی ہے، بعض اوقات شاگرد ڈنڈی بھی مار جاتے ہیں لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا، بہرکیف ان کے شاگردوں سے میں نے پوچھا کہ مولانا عبدالرحمان صاحب کیسے استاذ ہیں، دونوں کا کورس میں جواب تھا، بہت اچھے استاذ ہیں، میں نے پوچھا کہ کس طرح کے اچھے، کہنے لگے کہ سمجھاتے بہت اچھا ہیں، طریقہء تدریس ایسا ہے کہ گھول کر پلا دیتے ہیں، پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم طلبا کیلئے انتہائی شفیق اور مہربان ہیں، میرا خیال ہے کہ اگر یہ صفات کسی استاذ میں ہیں تو وہ ایک کامیاب استاذ ہے، خدا ہر طالب علم کو عبدالرحمن بھائی جیسا استاذ دے-
عبدالرحمن بھائی ‘افکار عالیہ، کے مرتب بھی ہیں، محدث مرحوم ہو چکا، ترجمان اس لائق نہیں بچا کہ اسے پڑھا جا سکے، التبیان التوعیہ کا بدل ثابت نہیں ہو سکا، آثار پتہ نہیں، زندہ ہے یا مر گیا لیکن جب تک زندہ رہا، آن بان شان سے رہا، احتساب دوسروں کا احتساب جم کر کرتا ہے، البلاغ جیسا تھا، اچھا تھا لیکن اب شاید وہ بھی مرحوم ہو چکا ہے ترجمان التوعیہ اور البلاغ کا تنوع بھلاے نہیں بھولتا، فری لانسر واقعی اسم با مسمی ہے لیکن اب صرف اس کا نیٹ اڈیشن شائع ہوتا ہے، ایسے میں افکار عالیہ گر چہ سہ ماہی سہی لیکن معیاری ہے، خدا کرے کہ عبدالرحمن بھائی افکار عالیہ کے معیار سے کبھی سمجھوتہ نہ کریں-
ہر انسان خوبیوں اور خامیوں کا مرقع ہوتا ہے، عبدالرحمن بھائی کی خوبیوں کا ذکر خیر ہو چکا، اب ذرا ان کی خامیوں کا ذکر شر ہو جائے، عبدالرحمان بھائی کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ مجھ جیسے انسان سے بھی محبت کرتے ہیں اور یہ اچھی بات نہیں ہے، خدا عبدالرحمن بھائی کو سمجھ دے-
عبدالرحمن بھائی نے ہمیں تحفے میں افکار عالیہ کے مختلف شمارے دیئے، ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری نمبر دیا، یاران تیزگام! کتابوں سے بہتر کوئی تحفہ نہیں، اس لئے ان تحائف کو پا کر اب تک مسرور ہوں-
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ محترم مدیر صاحب امید کہ خیریت سے ہونگے
بعدہ
ایک عدد بات کرنی تھی کہ محرر نے جو جون پور کو شیراز ہند لکھا ہے تو اس وقت کے جون پور میں آج کا مئو اعظم گڑھ بھی شامل تھا اور جو بھی بڑی شخصیات تھیں سب یہ مبارکپور اور مئو کی ہی تھیں لیکن لوگ اپنے ناموں کے جونپوری لکھا کرتے تھے
شکریہ
السلامُ علیکـم ورحمةالله وبرکاتہ
امید بخیر ہونگے انشاءاللہ
کتابوں کے تعلق سے کچھ گفتگو درکار ہے
آپکا رابطہ نمبر مطلوب ہے
حارث عزیز سورت گجرات