مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے زیر اہتمام ملکی سطح کی پینتیسویں کانفرنس بعنوان “احترام انسانیت اور مذاہب عالم” کو منعقد ہوئے تقریبا ایک ہفتہ گزر چکا ہے اور سوشل میڈیا پر آیا مثبت و منفی تبصروں کا ابال بھی قریب قریب تھم چکا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اب کچھ اپنی بھی عرض کردوں۔
بنیادی طور پر یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ احترام انسانیت کا موضوع دو دھاری تلوار ہے۔
ایک طرف انتہاپسندی، عدم برداشت اور دہشت گردی کے آئے دن پیش آنے والے واقعات، موب لنچنگ سے لے کر بولڈوزر والے انصاف اور ظلم پر مبنی، معصوم لوگوں، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی جان لیتی جنگوں سے جوجھتی اور کراہتی انسانیت ہے جو اپنے درد کا درماں چاہتی ہے۔
دوسری طرف احترام انسانیت کا ماسونی ورژن ہے جس میں ادیان باطلہ کے ساتھ ساتھ دین برحق دین اسلام کی بھی نفی کرکے انسانیت ہی کو سب کا دین دھرم ثابت کرنے کی ہر سو کوشش جاری ہے، یہودی حسد اپنی سرشت سے باز نہیں آرہا ہے، (نحن أبناء الله وأحباءه) کے خمار نے انھیں اس قدر مخمور و مدہوش کردیا ہے کہ وہ خود کے علاوہ سب کو مذہب کے لباس سے آزاد کرکے ننگا کرنے پر تلے ہیں، تاکہ وہ صرف حامل دین رہیں اور بقیہ دنیا اس شرف سے محروم ہوجائے۔
اسی سے قریب ایک اور صورت حال ہمارے اپنے ملک میں بھی ہے، ہمارے اپنے ملک میں مذہب بیزاری کا ماحول تو نہیں لیکن ادیان باطلہ کے پیروکاروں نے دین برحق کی کاٹ کو ختم کرنے کے لیے یہ نعرہ دیا ہوا ہے کہ “مانوتا ہی سب سے بڑا دھرم ہے” اس طرح سیاہ و سفید کو ایک کرنے کی دعوت عام ہے۔
صورت حال یہ ہے کہ جن پر مذہب کا بے جا جنون سوار ہے وہ انسانیت کے دشمن بنے ہوئے ہیں اور جن پر “انسانیت” کی مذکورہ بالا تعبیر کا خمار چھایا ہوا ہے وہ دینداری کو انتہا پسندی سے جوڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔
ایسے ماحول میں ایک طرف انسانیت کے احترام کا سبق پڑھانا، زخمی زخمی انسانیت کے تن نیم مردہ پر مرہم لگانا، ہر انسان کے پانچ بنیادی حقوق دین، جان، مال، عقل اور نسل کے تحفظ کا پاٹھ پڑھانا اور دوسری طرف (إن الدين عند الله الإسلام) بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے (آل عمران: ١٩) اور (ومن يبتغ غير الإسلام دينا فلن يقبل منه وهو في الآخرة من الخاسرين) جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا (آل عمران:85) کا آوازہ حق بلند کرنا ایک کٹھن اور مشکل کام ہے، ان دونوں طرح کے تقاضوں کو پورا کرنا اور ایک متوازن اور معتدل موقف طے کرتے ہوئے حد فاصل اور خط امتیاز کھینچنا وقت کی اہم ترین ضرورت بھی ہے اور ایک علمی، دینی، ملی و ملکی فریضہ بھی۔
دہلی کی اس کانفرنس میں بعض ایسے مظاہر ضرور دیکھنے میں آئے جہاں بعض مہمان حضرات نے وہی مانوتا ہی سب سے بڑا دھرم ہے والی بات کہی یا خط امتیاز کو ختم کرنے کی بات کی بعض اپنوں نے (خطباء، شعراء اور مقالہ نگاروں میں سے بعض) بھی “گنگا جمنی تہذیب” کی سراہنا کی لیکن کانفرنس کے نمائندہ علماء و مقالہ نگاران نے اپنی تقریر و تحریر سے یقینا ایک واضح پیغام دیا۔
سوال یہ ہے کہ وہ حد فاصل یا خط امتیاز کیا ہے جس سے انسانیت کے احترام اور انسانیت کے نام پر دین سے دستبردار ہوجانے کے درمیان فرق کیا جاسکتا ہے۔
اس کا جواب اس مسئلہ میں مضمر ہے کہ ہم قرآن و سنت کی دو اصطلاحات مداہنت اور رواداری(مدارات) کو سمجھیں، اسلام نے ہمیں رواداری کا سبق پڑھایا اور مداہنت سے روکا ہے۔
رواداری کے باب میں ہمیں حکم ہے کہ { لَّا یَنۡهَاكُمُ ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِینَ لَمۡ یُقَـٰتِلُوكُمۡ فِی ٱلدِّینِ وَلَمۡ یُخۡرِجُوكُم مِّن دِیَـٰرِكُمۡ أَن تَبَرُّوهُمۡ وَتُقۡسِطُوۤا۟ إِلَیۡهِمۡۚ إِنَّ ٱللَّهَ یُحِبُّ ٱلۡمُقۡسِطِینَ }
اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنھوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (الممتحنة:8)
رواداری ہی کے باب میں اس بات کا بھی حکم ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی اچھا سلوک روا رکھیں { وَلَا تَسۡتَوِی ٱلۡحَسَنَةُ وَلَا ٱلسَّیِّئَةُۚ ٱدۡفَعۡ بِٱلَّتِی هِیَ أَحۡسَنُ فَإِذَا ٱلَّذِی بَیۡنَكَ وَبَیۡنَهُۥ عَدَ ٰوَةࣱ كَأَنَّهُۥ وَلِیٌّ حَمِیمࣱ }
اور (اے نبی) نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ (فصلت: 34)
امام بخاری نے اپنی صحیح کے کتاب الأدب میں مستقل باب (باب المداراة مع الناس) باندھا ہے اور شریعت مطہرہ کی اس بے مثال و لازوال تعلیم کی استنادی حیثیت کو اجاگر کیا ہے۔ یہی روش کتب حدیث کے دیگر متعدد مؤلفین کی بھی ہے جنھوں نے باب بھی قائم کیے اور اس مسئلہ کی دلیل بننے والی احادیث بیان کی ہیں۔
اور مداہنت کے باب میں ہمیں پڑھایا گیا ہے کہ لوگ چاہیں گے اور دعوت بھی دیں گے کہ تم دین یا متعلقات دین سے دستبردار ہوجاؤ لیکن تم کسی کی نہ سنو { وَدُّوا۟ لَوۡ تُدۡهِنُ فَیُدۡهِنُونَ } یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کرو تو یہ بھی مداہنت کریں۔ (القلم: 9)
مکی زندگی میں مسلمان کمزور تھے لاچار و بے بس تھے تب بھی اس مداہنت کی بات آئی تو اللہ تعالی نے یہ فیصلہ کن سورت اتاری (قُلۡ یَـٰۤأَیُّهَا ٱلۡكَـٰفِرُونَ لَاۤ أَعۡبُدُ مَا تَعۡبُدُونَ وَلَاۤ أَنتُمۡ عَـٰبِدُونَ مَاۤ أَعۡبُدُ وَلَاۤ أَنَا۠ عَابِدࣱ مَّا عَبَدتُّمۡ وَلَاۤ أَنتُمۡ عَـٰبِدُونَ مَاۤ أَعۡبُدُ وَلَاۤ أَنتُمۡ عَـٰبِدُونَ مَاۤ أَعۡبُدُ لَكُمۡ دِینُكُمۡ وَلِیَ دِینِ) کہہ دو کہ اے کافرو میں اُن کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو، اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ اور نہ میں اُن کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔ (سورة الكافرون: ١-٦)
اب ایک حساس سوال یہ ہے کہ اس مداہنت اور رواداری کے درمیان فرق کا ضابطہ کیا ہوگا؟ کیسے طے ہوگا کہ ہمارا کونسا طرز عمل رواداری میں شمار ہوگا اور کونسی بات مداہنت اور ناجائز قرار پائے گی؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام قرطبی نے یہ بات لکھی ہے جسے حافظ ابن حجر نے قاضی عياض کی طرف بھی منسوب کیا ہے اور خود بھی اس سے اتفاق کیا ہے، امام قرطبی فرماتے ہیں: (المدَاراة بذل الدنيا لصلاح الدنيا أو الدين أو لهما معًا، وهي مباحة وربما استحبت. والمداهنة ترك الدين لصلاح الدنيا) رواداری یہ ہے کہ کسی دینی یا دنیوی یا دونوں ہی قسم کے مفاد کی خاطر دنیا کو برتا جائے، ایسا کرنا مباح ہے بلکہ بسا اوقات مستحب بھی ہے اور مداہنت یہ ہے کہ کسی دنیوی مفاد کی خاطر دین کو ترک کردیا جائے۔ (فتح الباری: 10:454)
دنیا آج انہی دو انتہاؤں میں سے کسی ایک کا شکار ہے یا تو رواداری کے نام پر مداہنت میں مبتلا ہے یا مداہنت سے بچنے کے نام پر رواداری کے تقاضوں کو پورا کرنے سے کترا رہی ہے، شریعت مطہرہ کا یہ حسن ہے کہ جہاں ان دونوں کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے ایک کو اپنانے اور دوسری سے بچنے کا حکم دیا وہیں یہ بھی سکھلایا کہ بسا اوقات ایک ہی شخص کے ساتھ یہ دونوں معاملات کیسے نبھائے جاسکتے ہیں، ارشاد ہوا ({ وَإِن جَـٰهَدَاكَ عَلَىٰۤ أَن تُشۡرِكَ بِی مَا لَیۡسَ لَكَ بِهِۦ عِلۡمࣱ فَلَا تُطِعۡهُمَاۖ وَصَاحِبۡهُمَا فِی ٱلدُّنۡیَا مَعۡرُوفࣰاۖ وَٱتَّبِعۡ سَبِیلَ مَنۡ أَنَابَ إِلَیَّۚ ثُمَّ إِلَیَّ مَرۡجِعُكُمۡ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمۡ تَعۡمَلُونَ }
اور اگر وه دونوں (والدین) تم پر دباؤ ڈالیں کہ تم میرے ساتھ شریک کرو جس کا تمھیں علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راه چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو) (لقمان: 15)
یہی معیار ہے اور یہی ضابطہ ہے، ہمیں انسانیت کے درد کا درماں بھی کرنا ہے اور انسانیت کو نار جہنم سے بچانا بھی ہے، ایک کی خاطر دوسرے کام سے دستبردار ہوجانا یا انسانیت کے ایک مسئلہ کو حل کرتے ہوئے اس سے بڑی خیر خواہی سے دستبردار ہوجانا نہ ہمدردی ہے نہ حقیقی خیرخواہی۔
غور سے دیکھیے تو یہ مداہنت سے پرہیز بجائے خود مدعو کے سامنے ایک عظیم دعوت ہے، مدعو کو یہ دعوت فکر و عمل ہے کہ ذرا سوچو! جو تمھارے لیے اپنی ساری دنیا لٹا سکتا ہے وہ دین کے معاملہ میں اس قدر محتاط ہے تو واقعی معاملہ سنجیدہ اور گمبھیر ہے، یہ واقعی بندگی کا معاملہ ہے جو اس داعی کی طرح میرے اندر بھی پیدا ہونا چاہیے۔
مدعو تک اگر یہ پیغام پہنچ جائے تو خود کے دین کے تحفظ کے ساتھ اس مداہنت سے بچنے کا ایک اور ہم مقصد پورا ہوجائے گا۔
ہمیں ایک طرف مداہنت اور رواداری کے فرق کو واضح انداز میں سمجھنا ہے اور دوسری طرف دنیا کو سمجھانا اور یہ یقین دلانا ہے کہ انسانیت کی ضرورت رواداری ہے مداہنت نہیں، اور رواداری کے اس ماحول میں اسلام کا یہ ابدی پیغام سناتے رہنا ہے کہ { لَاۤ إِكۡرَاهَ فِی ٱلدِّینِۖ قَد تَّبَیَّنَ ٱلرُّشۡدُ مِنَ ٱلۡغَیِّۚ فَمَن یَكۡفُرۡ بِٱلطَّـٰغُوتِ وَیُؤۡمِنۢ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱسۡتَمۡسَكَ بِٱلۡعُرۡوَةِ ٱلۡوُثۡقَىٰ لَا ٱنفِصَامَ لَهَاۗ وَٱللَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ }
دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا ہے) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ (البقرة : ٢٥٦)
بغیر مداہنت کے رواداری انسان کو ظالم یا جابر نہیں بناتی اسے محض ایک مصلح اور خیرخواہ داعی بناتی ہے جو اپنی بات دو ٹوک رکھ دیتا ہے لیکن کسی پر مسلط نہیں ہوتا اور نہ ہی قوم کے لیے مسئلہ بنتا ہے۔ اس کا طریقہ یہی ہوتا ہے:
{ وَقُلِ ٱلۡحَقُّ مِن رَّبِّكُمۡۖ فَمَن شَاۤءَ فَلۡیُؤۡمِن وَمَن شَاۤءَ فَلۡیَكۡفُرۡۚ إِنَّاۤ أَعۡتَدۡنَا لِلظَّـٰلِمِینَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمۡ سُرَادِقُهَاۚ وَإِن یَسۡتَغِیثُوا۟ یُغَاثُوا۟ بِمَاۤءࣲ كَٱلۡمُهۡلِ یَشۡوِی ٱلۡوُجُوهَۚ بِئۡسَ ٱلشَّرَابُ وَسَاۤءَتۡ مُرۡتَفَقًا }صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے ربّ کی طرف سے، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔ ہم نے (انکار کرنے والے) ظالموں کے لیے ایک آگ تیار کر رکھی ہے جس کی لپٹیں انھیں گھیرے میں لے چکی ہیں۔ (الكهف: ٢٩)
حق کو حق سمجھنے اور کہنے سے یا حق کی طرف دعوت دینے سے نہ کبھی انتہاپسندی جنم لیتی ہے اور نہ دہشت گردی، انتہاپسندی تو دو ہی صورتوں میں پیدا ہوتی ہے۔
1۔ ایک داعی کا کسی پر مسلط ہوجانا اور لوگوں پر زور زبردستی اپنی کسی بات کو تھوپنا جس کے بارے میں ارشاد ہوا (فَذَكِّرۡ إِنَّمَاۤ أَنتَ مُذَكِّرࣱ لَّسۡتَ عَلَیۡهِم بِمُصَیۡطِرٍ) تو (اے نبی صلى الله عليه وسلم) آپ نصیحت کیے جاؤ، آپ بس نصیحت ہی کرنے والے ہو،آپ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو۔ (الغاشية : 21,22)
2۔ مخاطب یا مدعو کے اندر برداشت کا مادہ نہ ہونا جس کے نتیجہ میں وہ حق اور اہل حق کے خلاف محاذ آرائی پر اتر آئے۔
لوگ ان دو انتہاؤں سے بچ کر اعتدال کی راہ پر قائم رہیں اور عدل و انصاف پر گامزن رہیں تو پھر یہ دنیا ایک پر امن مقام بن جائے گی۔
موضوع کو سمیٹنے سے پہلے اس حقیقت کو بھی سمجھ لیا جائے کہ گفتگو کا مقصد خط امتیاز یا حد فاصل کی پہچان ہے، اسلامی شریعت اس رواداری سے آگے عدل و انصاف اور بر و احسان اور تحفظ حقوق وغیرہ کی جو تفصیلی تعلیمات دیتی ہے وہ ایک مستقل باب ہے جس کا ایک نمونہ اس آیت میں گزر چکا ہے { لَّا یَنۡهَاكُمُ ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِینَ لَمۡ یُقَـٰتِلُوكُمۡ فِی ٱلدِّینِ وَلَمۡ یُخۡرِجُوكُم مِّن دِیَـٰرِكُمۡ أَن تَبَرُّوهُمۡ وَتُقۡسِطُوۤا۟ إِلَیۡهِمۡۚ إِنَّ ٱللَّهَ یُحِبُّ ٱلۡمُقۡسِطِینَ }
اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنھوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (الممتحنة:8)
اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرَائِيلَ، وَمِيكَائِيلَ، وإسْرَافِيلَ، فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالأرْضِ، عَالِمَ الغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ تَحْكُمُ بيْنَ عِبَادِكَ فِيما كَانُوا فيه يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِما اخْتُلِفَ فيه مِنَ الحَقِّ بإذْنِكَ؛ إنَّكَ تَهْدِي مَن تَشَاءُ إلى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ.
بارك الله في علمك نفع الله يك الاسلام و المسلمين
بارك الله فيكم ونفع بكم الإسلام والمسلمين
شیخ محترم کو اللہ جزائے خیر دے
بہت خوب لکھا ہے
بہت سے شکوک کا ازالہ کردیا ہے