ایک آدمی جو کم علمی اور احساس کمتری کی وجہ سے اپنی ذاتی زندگی کے معاملات و مسائل میں اپنے نجی موقف کو دل میں دبا کر جیتا ہے وہ اجتماعی بے توجہی کا ایسا مارا ہوتا ہے کہ ہر سماجی ناہمواری پر لفظوں سے پتھراؤ کرتا ہے۔
منکر پر نکیر کی ہر سچویشن میں وہ ہمیشہ ایک ہی دہائی دیتا ہے، اتحاد۔ حالانکہ اپنے چھوٹے بڑے ہر معاملے میں وہ کسی کے ساتھ نہیں چلتا، کسی کے پیچھے چلنا تو اس کی کتاب میں ہی نہیں ہے۔ اس کی لغت میں اتحاد کس چیز کو کہتے ہیں وہی جانے۔
اصل مسئلہ اس کا لاعلمی ہے اس لیے وہ نہیں جانتا کہ اختلاف کیا ہے اور انتشار کیا، علاج کیا ہے اور اختلاج کیا۔ ہر نعرہ اس کی آواز، ہر جھنڈا اس کا انداز اور ہر بھیڑ اس کی پرواز ہوتی ہے۔
اس کی زندگی میں موجود ساری سرگرمیاں خون کھولاتی ہیں جن پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا، جن سے نجات کی کوئی صورت بھی اسے نظر نہیں آتی۔ مگر وہ فلسطین کے قضیے پر اپنی رائے اتنے دھڑلے سے پیش کرتا ہے جیسے فلسطین دور دراز کوئی ملک یا ریاست نہیں اس کا اپنا علاقہ ہو جہاں وہ شب و روزرہتا ہے۔ فلسطین کا قضیہ جیسا حقیقت میں ہے اس کی ایک صاف تصویر بڑی وضاحت و صراحت کے ساتھ زیر نظر مضمون میں ہے۔ جاننا ہو تو حقائق تک رسائی مشکل نہیں ہے مگر نقطۂ نظر کے مطابق ہی منظر دکھائی دیتا ہے۔
منظر جیسا ہے ویسا ہی دکھائی دے اس کے لیے اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ جیسا تہران دکھانا چاہتا ہے اس کے لیے صرف سنی اور جذباتی ہونا کافی ہے۔ بصیرت کی ضرورت ہے نہ بصارت کی، آنکھیں کھلی ہوں گی تو بھی منظر پر چشمے کا رنگ ریفلیکٹ ہوگا۔ فلسطین ہمارے گاؤں کا جھگڑا نہیں ہے، شرعی اور تاریخی اعتبار سے انتہائی قدیم قضیہ ہے، سلف صالحین اور ان کے سچے وارثین سے تعلق ہو تو دل منور دماغ روشن ہو۔ مگر شریعت کا علم ہے نہ تاریخ کا، قبلہ پتہ بھی ہے تو شعور نہیں، قبلہ رخ ہونے کا سلیقہ نہیں۔ خیرخواہ دشمن لگتے ہیں اور دھوکرکاس ہمدرد، دماغ جگہ پر نہیں، دل ڈگر پر نہیں اور زبان ہر لمحہ پھسلتی ہوئی ہر مدار پر۔
حقائق سے نابلد اور مستند معلومات سے عاری ذہنوں کا یہ مشغلہ، اٹکل پچو مار کر، ڈیجیٹل اسکرینوں پر الفاظ و آواز سے لکیریں کھینچنا اور لہریں پیدا کرنا ان کے لیے وقت گزاری اور عارضی تفریح ہے مگر سماج میں جو گندھ مچتی ہے اسے صاف کرنے میں بلاوجہ انرجی ضائع ہوتی ہے۔
ایسی علامات جس میں بھی پائی جائیں وہ بیمار ہے، اس کا علاج ہونا چاہیے۔ اب ایسے بیمار ہماری صفوں میں بہت بڑھ رہے ہیں۔ جو کسی مسئلے میں شذوذ پسندی کی راہ پر ہیں، کراؤڈ فنڈنگ کے کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں، میڈیائی پرسونا ڈیولپ کرنے یا سوشل میڈیا سلیبرٹی بننے کی ہوڑ میں دن رات لگے رہتے ہیں وہ تحریکی مزاجوں کو خوراک فراہم کرتے ہیں۔ علم کے زعم میں بصارت و بصیرت سے محروم شخص کی طرح اپنی قلم سی انگلی کو لاٹھی جیسی بھانجتے ہیں، جس سے مسلمات پر ضرب پڑتی ہے، علماء امت کی عزتوں پر حرف آتا ہے، حالات کے تقاضوں کی دھجیاں اڑتی ہیں، خیر کی راہ پر گامزن شخصیات کی سبکی ہوتی ہے۔ یہ سب نظرانداز کرنے کا ہنر ہی اجتماعی مصالح پر ذاتی مفادات کو ترجیح دینے سے آتا ہے۔ ویوز، ریٹنگ اور سبسکرپشن کا کاروبار ہی ایسا ہے کہ ہر سچویشن میں موقع نکال لیتا ہے، تمام حالات میں سین بنالیتا ہے اور اصول و حقائق کو نظرانداز کرنے کی ڈھلان پر اترجاتا ہے۔
ایسے تمام بیماروں اور بیماریوں کا علاج بتایا ہے دکتور وسیم المحمدی صاحب نے، زیر نظر مضمون میں جو بے ساختگی ہے وہ صرف انداز ہی میں نہیں ہے، اقوال زریں نما جملوں کی ساخت میں بھی ہے۔ اللہ رب العالمین دکتور صاحب کے علم و عمل میں برکت دے، ان کے الفاظ اور آواز کو ہر زخم کی صفائی اور مرہم پٹی میں اسی طرح کام آنے کے مواقع دیتا رہے۔ جتنی بیباکی اور صاف گوئی کے ساتھ انھوں نے سلفیت کی صفوں میں متعدی امراض کا شکار ہوتے کم علموں اور چھچھلے مزاجوں کی شناخت کی ہے وہ انھی کا حصہ ہے۔ اللہ رب العزت ایسے علم، ایسی فکر اور ایسے جذبے والے تمام علماء کو قوت دے۔ آمین
سلفیوں کا جو طبقہ اس وقت سنگ گراں بن کر اپنوں کی راہ میں حائل ہے اللہ تعالیٰ اسے علم دے، شعور دے، حق و باطل کے درمیان تمیز کی صلاحیت دے۔ (ایڈیٹر)
تاریخ انسانیت میں یہودیوں کی ایک الگ ہی پہچان رہی ہے۔ شر پسندی اور شر انگیزی میں-روافض کے سوا -ان کا کوئی ثانی نہیں رہا۔ جھوٹ، نفاق، مکر وفریب، فتنہ وفساد، قتل وغارت گری میں ان کی ایک تاریخ رہی ہے۔یہ پوری تاریخ ظلم وستم سے لہولہان اور قساوت قلبی کے مظاہر سے تاریک ہے۔ ان کا ڈی این اے ہی کچھ ایسا ہے کہ امن و آشتی اور چین وسکون انھیں کبھی راس نہیں آتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہودی کسی زمانے میں اگر اپنا مذہب اور وطن سب کچھ بدل کر کہیں اور آباد ہوگئے ہیں تب بھی سرشت وہی ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے؛ کیونکہ ڈی این اے وہی ہے۔
اس ڈی این اے کی تشکیل وتکوین میں ان کے تحریف شدہ دین اور تلمودی فکر کی بڑی حصہ داری رہی ہے جو یہودیوں -نعوذ باللہ- کو اصل انسان بلکہ اللہ کا عنصر قرار دیتی اور انھیں تعصب اور بالا دستی کا نشہ پلاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ غیر یہودیوں کے لیے ہر قسم کے ظلم وستم اور دست درازی کو جائز بلکہ ثواب ٹھہرا کر انھیں دہشت گردی اور خونخواری کی راہ دکھاتی ہے۔
رافضیت کی اصل یہودیت ہے۔ روافض متعدد صفات میں یہودیوں کے وارث ہیں۔ عقائد سے لے کر اعمال تک اور اعمال سے لے کر صفات تک روافض یہود کا اسکین شدہ نسخہ ہیں۔ تاہم تین یہودیانہ صفات ایسی ہیں جو روافض کے اندر بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ مکروفریب،شدید ترین اسلام دشمنی اورشر پسندی وشر انگیزی۔
روافض اسلام دشمنی میں یہودیوں کے ہم پلہ بلکہ سوا ہیں۔ موجودہ دور میں وہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے یہودیوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔ صرف گزشتہ دس سے پندرہ برسوں میں رافضیوں نے جتنے مسلمانوں کو قتل کیا ہے یہودیوں نے پوری اسلامی تاریخ میں اس قدر مسلمانوں کا خون نہیں بہایا ہے۔ عصر حاضر میں اسلامی ملکوں کو جس قدر نقصان رافضیوں سے پہنچا ہے یہود اس سے بہت پیچھے ہیں۔ صرف گزشتہ پندرہ برس کی اسلامی تاریخ ان کے ہاتھوں اس قدر لہولہان ہے کہ اسلام کی باقی تاریخ اس پر نوحہ کناں ہے۔
قرن اول سے ہی سلف، روافض کی شر انگیزی سے خبردار کرتے رہے ہیں۔ اس بابت ان کی گفتگو پر نظر ڈالیں،ان کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو واضح طور سے یہ محسوس ہوگا کہ وہ روافض کو اہل اسلام سے الگ ایک قوم سمجھتے تھے۔ ہر دور میں ان کی اسلام دشمن قوم کی حیثیت سے پہچان رہی۔ یہ ہمیشہ یہود ونصارى اور دیگر اسلام دشمن قوتوں کے حلیف کی حیثیت سے جانے گئے۔اہل علم کی ایک معتد بہ جماعت نے ان روافض کو یہود ونصارى سے خطرناک بتایا اور ان کی سنگینی سے امت کو آگاہ کیا ہے۔
سلطنت عثمانیہ ایران کی رافضی حکومت اور مجوسی سلطنت سے ہمیشہ جوجھتی رہی۔ اس کی فتوحات میں یہ فارسی حکومت حتى المقدورروڑہ بنتی رہی۔ اس طرح رافضیت کی اسلام دشمن شناخت باقی رہی۔ اہل علم ہر دور میں ان کی حقیقت جانتے اور بتاتے رہے۔ ابن تیمیہ-رحمہ اللہ- نے صاف طور سے کہہ دیا:”الرَّافضۃُ مِن أجھلِ النَّاسِ وأضلِّھم،کما أنّ النَّصارى من أجھلِ النّاس. والرَّافِضۃُ مِن أخْبَثِ النّاسِ، کما أنّ الیھودَ من أخْبَثِ الناس. فَفِیھم نوعٌ من ضلالِ النَّصارَى، ونوعٌ مِنْ خُبْثِ الیَھُودِ “.(منہاج السنۃ 2/65) یعنی: روافض جہالت و گمراہی میں پہلى صف میں کھڑے ہیں، جس طرح نصارى جہالت وکم علمی میں پہلی صف میں موجود ہیں۔ اسی طرح روافض خبیث ترین لوگ ہیں، جس طرح یہود خبیث ترین لوگ ہیں۔ چنانچہ روافض نصارى کی گمراہی اور یہودیوں کی خباثت کا مرکب ہیں۔
سلطنت عثمانیہ کے آخری ادوار میں بوجوہ یہ تفریق کم ہونے لگی اور اس کے سقوط کے بعد روافض اہل سنت میں خلط ملط ہونے لگے۔ رافضیوں کے اہل سنت میں خلط ملط ہونے، عوام میں ان کے تئیں ابہام پیدا کرنے ، ان کے بعض عقائد وافکار کو ہضم کرنے اور انھیں قابل قبول بنانے میں تین چیزوں نے کلیدی کردار ادا کیا:(۱) صوفیت(۲)اخوانیت(۳)اسلام دشمن سیاسی عناصر۔
صوفیت کا رافضیت سے گہرا تعلق ہے۔ پہلا شخص جس پر لفظ “صوفی” کا اطلاق ہوا رافضی تھا۔ صوفیت کے بڑے بڑے ائمہ رافضی الاصل ہیں۔ عقائد واخلاق میں مشابہت ، اعمال وصفات میں مطابقت اور افکار ونظریات میں موافقت اسی کا نتیجہ ہے۔ صوفیت کی بظاہر سادگی نے بہت سارے رافضی عقائد وافکار کو سنیوں میں بآسانی منتقل کیا۔ باطن میں چھپی اسلام دشمنی کی وجہ سے اسلام دشمنوں کا بھی اسےہمیشہ تعاون حاصل رہا ۔
اخوانیت اپنے وجود سے ایک شر پسند جماعت اور اسلام دشمن طاقتوں کا آلہ کار رہی ہے۔ انھی کی مدد سے اس کی نشو نما ہوئی اور انھی کے تعاون سے یہ تنظیم کھڑی ہوئی۔ دیار مصر کے محدث اور مفتی علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ نے پوری صراحت سے اس بات کا یہ کہہ کر ذکر کیا: “حرکۃُ الشَّیخِ حسَن البنّا وإخوانِہ المُسلِمینَ الذین قلَبُوا الدَّعوۃَ الإسلامیّۃَ إلى دَعوۃٍ إجرامیَّۃٍ ھدَّامۃٍ یُنفِقُ علَیھا الشُّیوعِیُّونَ والیَھودُ، کما نَعْلَمُ ذلکَ عِلْمَ الیَقِینِ”(شؤون التعلیم والقضاء:1/48) یعنی: شیخ حسن بنا اور ان کی تحریک اخوان المسلمین نے اسلامی دعوت کو ایک مجرمانہ اور تخریب کار دعوت میں تبدیل کردیا۔ اشتراکی اور یہودی اس پر باقاعدہ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ یہ بات ہم یقینی طور سے جانتے ہیں۔
اخوانیت نے اپنے اندر رافضیت، خارجیت اور اعتزال تینوں کے کئی اصولی انحراف اور شر کو جمع کرلیا۔ چنانچہ صحابہ کرام-رضی اللہ عنہم-کے معاملے میں یہ رافضیت زدہ ، حکام کے معاملے میں خارجی اور نصوص کے معاملے میں عقلانی ہوگئے۔ ان کے اندر انکار حدیث کی خوبو اسی عقلانیت کی وجہ سے آئی۔ معلوم رہے کہ عقلانیت ہی جہمیہ ومعتزلہ جیسے اہل منطق وفلسفہ کی گمراہیوں کا ایک کلیدی سبب ہے۔
عقلانیت اور ہوى پرستی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عقلانیت پہلے ہوى پرستی کا دروازہ کھولتی ہے پھر ہوی پرستی آگے بڑھ کر عقل کی لگام اپنے ہاتھوں میں تھام لیتی ہے۔اسلام میں جو جو افراد اور جو جو جماعتیں عقلانیت کا شکار ہوئیں، ہوى پرستی ان کے اندر در آئی۔ عقل ان کے یہاں مقدّم ہوئی۔ نتیجتاً نصوص کی حسب منشا تاویل کی گئی۔ بے جا تاویل وتحریف اور انکار حدیث کے جتنے فتنے آپ کو ملیں گے سب کے پیچھے کہیں نہ کہیں عقلانیت ضرور ملے گی۔ موجودہ دور میں دانشوری اسی عقلانیت کا پرتو ہے۔ بالخصوص وہ نام نہاد دانشوری ومفکریت جو کتاب وسنت کے اصولوں کی پابند نہیں، مادر پدر آزاد ہے۔درحقیقت یہ دانشوری نہیں فکری آوارگی اور دینی بے راہ روی ہے۔
عقلانیت، تعالم -بے علمی وکم علمی کے باوجود علم اور علمی برتری کا دعوى-کو جنم دیتی ہے۔ عقلانیوں کے یہاں کچھ نظر آئے نہ آئے کبر وغرور ، تحقیر واستہزاء اور علم کا بے جا طنطنہ ضرور نظر آئے گا۔ ڈھٹائی ، بے شرمی، ہٹ دھرمی تعالم کے لازمی نتائج ہوتے ہیں۔ چنانچہ اخوانیت میں تعالم بھی ہے اور تعالم سے پیدا ہونے والے شرور وفتن بھی۔ تقریباً یہی حال ان کا بھی ہے جو اخوانیت سے متاثر یا تحریکیت کے زیر اثر ہیں۔
جس طرح رافضی یہودیوں کے گدھے ہیں بالکل اسی طرح اخوانی رافضیوں کے گدھے ہیں۔ یہ اپنے وجود سے نہ صرف رافضیوں کے قریب رہے ہیں بلکہ صحابہ کرام-رضی اللہ عنہم- کے ان دشمنوں سے جوخبث اور شر پسندی سے لت پت ہیں، ان کا تعلق ولاء کی بنیاد پر قائم ہے۔ اخوانیوں کے وجود سے لے کر عصر حاضر تک ان کے موقف اور کردار کا محاسبہ کیا جائے تو یہ چیز جابجاواضح طور سے نظر آئے گی۔ تقریباً ہر نازک موڑ پر یہ رافضیوں کے ممد ومعاون اور حلیف رہے۔
افکار ونظریات میں یکسانیت، دوستی اور تعلقات کا براہ راست اثر اخلاق پر پڑتا ہے۔ رافضیوں نے یہودیوں سے صرف افکار ونظریات نہیں لیے،ان کا اخلاق بھی کشید کیا۔ اخوانیوں نے بھی رافضیوں سے صرف افکار نہیں لیے ان کے اخلاق کا بھی ٹھیک ٹھاک حصہ لیا۔جھوٹ، فریب، خیانت، شر پسندی اور شر انگیزی اسی اخلاق کا حصہ ہیں۔
برصغیر میں موجود تحریکی،اصلاحی اورمودوی اسی اخوانیت کا پرتو ہیں۔عقائد ونظریات میں یکسانیت اور اخلاق وکردار میں مشابہت ایسی ہے کہ ایک پر دوسرے کا اطلاق ہوتا ہے۔ چاہے سید کتب کی “فی ظلال القرآن” ہو یا “معالم فی الطریق” یا پھر مولانا مودوی کی “خلافت وملوکیت” سب میں رافضیت کی بدبو، خارجیت کا بارود اور عقلانیت کی بوسیدہ چادر میں لپٹی ہوی پرستی یکساں ملے گی۔ جو تعالم، کبر وغرور ، تحقیر واستہزاء ، ڈھٹائی ، بے شرمی اور ہٹ دھرمی اخوانیت کی پہچان ہے، وہی تحریکیت، اصلاحیت اور مودویت کی خصوصیت ہے۔سنیوں میں رافضی افکار پھیلانے اور انھیں قابل ہضم بنانے میں سب سے بڑا کردار اسی اخوانیت ، تحریکیت، اصلاحیت اور مودودیت کا ہے۔ طہران دونوں کا قبلہ وکعبہ ہے۔
اسلام دشمن سیاسی عناصر نے بھی سنیوں میں رافضیت پھیلانے اور اسے مقبول بنانے میں بڑے سلیقے سے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ایران اور اس کے ہمنواؤں کو ہیرو بنانے اور انھیں اسلام دوست اور مسلم دنیا کا خیر خواہ ثابت کرنے میں ان کا کردار کسی صاحب بصیرت پر مخفی نہیں ہے۔ اس طرح یہ اسلام پر دہرا وار کرتے ہیں۔ ایک طرف یہ اسلام دشمن عناصر کو مختلف طریقوں سے اسلام کا خیر خواہ اور اپنا دشمن باور کراتے ہیں تو دوسری طرف مخلصین اسلام کو اسلام دشمن باور کرانے کے لیے پوری قوت جھونک دیتے ہیں۔ عراق، لبنان، شام اور یمن میں اس قدر دہشت گردی کے باوجود سنیوں میں ایران کی مقبولیت کا ایک اہم راز یہی ہے۔ جب کوئی اپنا خیر خواہ لگنے لگے تو اس کے افکار خود بخود قابل ہضم ہونے لگتے ہیں۔ جس پر بدخواہی کا لیبل لگ جائے اس کے افکار کیا اس کی ہر ادا بری لگنے لگتی ہے۔
یہ رافضیت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ دشمنان اسلام کا یہ قدیم اور بے خطا طریقہ رہا ہے۔ اہل اسلام کی نظر میں جسے مطعون کرنا ہواسے وہ اپنا دوست باور کراتے ہیں بھلے ہی وہ ان کا ازلی دشمن ہو۔ جسے ہیرو بنانا ہو اسے اپنا دشمن ظاہر کرتے ہیں بھلے ہی وہ ان کا گہرا دوست ہو۔ اس گمراہ کن تشہیر اور پروپیگنڈے کے لیے میڈیا کے تمام وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں اور ان پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔
یہ وہ تین عناصر ہیں جنھوں نے رافضیت کو سنیوں میں پھلنے پھولنے اور رافضی افکار کو قابل ہضم بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ تاہم اخوانیت وتحریکیت ان میں سب سے شر انگیز اور اپنے منفی کردارمیں سب سے اعلى ہے۔ حالیہ عالمی حوادث نے جس طرح رافضیت کو بے نقاب کیا ہے اسی طرح اخوانیت کو بھی ننگا کردیا ہے۔ لیکن جب بصیرت اندھی ہو جائے تو بصارت کسی کام کی نہیں رہ جاتی: (فإنَّھا لا تَعْمَی الأبصارُ ولکنْ تَعْمَى القُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُوْرِ) [الحج: 46]
اس وقت عالم اسلام عموماً اور مشرق وسطى (مڈل ایسٹ) خصوصاً جس آزمائش کا شکار ہے اس میں صیہونیت، صلیبیت، یہودیت ونصرانیت کے ساتھ ساتھ ایک بڑا کردار رافضیت اور اخوانیت کا ہے۔ رافضیت اسلام کے قلب عالم عرب کو پاش پاش کرنے کی پوری کوشش کر رہاہے۔ عراق ، شام، لبنان اور یمن میں ایسی خوں ریزی مچائی ہے کہ تاریخ اسلام کی خونچکاں داستانوں کا ایک ناقابل فراموش حصہ بن گیا ہے۔
رافضیت کے اس مشن میں اخوانیت نے حتى المقدور ساتھ دیا اور عالم عرب کی تباہی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔صیہونیوں صلیبیوں اور رافضیوں کی سازش سےدسمبر 2010م سے عرب ممالک میں جب سلسلہ وار مظاہرات شروع ہوئے اور ہر رطب ویابس کو جلانے لگے؛اخوانی اس کے ایندھن بنے۔ ہر جگہ انھوں نے اسلام دشمنوں کا ساتھ دیا اور ملک میں افراتفری پھیلانے میں بھرپور مدد کی۔ یہ در اصل اس ثورائیت کا نتیجہ ہے جو انھوں نے رافضیت کے نام نہاد انقلاب سے کشید کیا ہے اور اس خارجیت کا ثمرہ ہے جو ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔ رافضیوں کے ساتھ کھڑے ہوکر یمن کی سنی حکومت کو جس طرح انھوں نے سبوتاژ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ فتنہ گرى کے علاوہ ان کے ہاتھ کچھ اور تو نہ آیا البتہ یمن کی حکومت، ایران کی مجوسی حکومت کے باج گزار رافضیوں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ اس طرح یمن جو سنیوں کا قلعہ اور عروبت کی اصل ہے اس کے ایک بڑے حصہ پر رافضی اور مجوسی حکومت کر نے لگے۔
ابھی بھی اخوانیت کے قدم رکے نہیں ہیں۔ جہاں جہاں موقع مل رہا ہے اپنی شرپسندی کا بھرپور ثبوت دے رہے ہیں۔ حماس کے حالیہ اقدام اور اس سے نکلنے والے پے درپے افسوس ناک نتائج نے رافضیت اور اخوانیت دونوں کے مکروہ چہروں سے مزید پردہ اٹھا دیا ہے۔ تاہم مریض نفوس اور بصیرت سے محروم افراد کی آنکھیں نہیں کھل رہی ہیں۔
دشمنان اسلام نے اپنى پلاننگ کی کامیابی اور مشن کی تکمیل کے لیے جس طرح میڈیا کو سیٹ کرکے استعمال کیا ہے اپنے اثر کے اعتبار سے وہ اس وقت نقطہ انتہا پر ہے۔ دراصل میڈیا اس وقت ہراول دستہ کا کام کر رہا ہے۔ اثر انگیزی اس قدر ہے کہ اچھے اچھے لوگ بآسانی اس کے شکار بن رہے ہیں۔ موجودہ وقت میں حقائق کو جاننے اور درست موقف اختیار کرنے کے لیے ایک نہایت اہم چیز، میڈیا کو درست انداز میں سمجھنا اور اس کی لپیٹ میں نہ آنا ہے۔ جسے جس قدر اس کا سلیقہ ہوگا وہ اسی قدر اس کی آفتوں سے محفوظ رہے گا۔
یہودی نصرانی صیہونی صلیبی مزدکی اور مارکسی میڈیانے حق کو باطل اور باطل کو حق باور کرانے کے لیے ایسی پروپیگنڈہ مشین ایجاد کی ہے جو حواس کو اس طرح جکڑتی ہے کہ عوام تو عوم خواص کا ایک طبقہ اس کے اثر سے باہر نہیں نکل پاتا اور کذب واتہام سے لبریز خبروں کی نہ صرف تصدیق کربیٹھتا ہے بلکہ اس کی تائید اور بسا اوقات اس کا دفاع بھی کرنے لگتا ہے۔
یہی حال کربلائی، تحریکی اور مودودی میڈیا کا ہے۔ کذب وادعاء، وضع واختلاق میں یہ یہود ونصارى کا مقابلہ کر رہا ہے۔ اپنے دشمنوں اور مخالفین کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے اور جھوٹی باتیں پھیلانے میں اس کا بعینہ وہی طریقہ ہے جو دشمنان اسلام کے اول الذکر طبقہ کا ہے۔
بر صغیر میں اس میڈیائی پروپیگنڈے کا ایک بڑا اثر یہ بھی ہوا ہے کہ منہج سلف کی اتباع کرنے والے اہل حدیثوں میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو مذکورہ بالاان تین عناصر -اخوانیت، صوفیت، اسلام دشمن سیاسی عناصر- کی طرح براہ راست رافضیت کا آلہ کار تو نہیں ہے نہ ہی وہ رافضی افکار کو سنیوں میں قابل ہضم بنانے پر اسٹیٹ ڈرائیو کام کر رہا ہے مگر اپنی شرانگیزی اور سنگینی میں وہ خطرہ کے نشان سے کافی اوپر جا چکا ہے۔ اس وقت اسے نظر انداز کرنا یا اس کی سنگینی کو کم آنکنا بہت بڑا دھوکہ ہوگا۔
سلفیوں میں موجود یہ طبقہ جو اخوانیت، تحریکیت اور دیگر اہل بدعت کے افکار کو سلفیوں میں قابل ہضم بنا رہا ہے ہم اسے سہولت کار کہیں یا نیم تحریکی، اخونچی کہیں یا سلفی دانشور، اس کا کردار نہایت سنگین اور عمل نہایت مردود ہے۔ اس طبقہ نے سلفیت کی دیوارِ چین میں سیندھ لگائی ہے اور اہل حدیثیت کے قلعہ میں نقب لگا کر وہ کام کر رہا ہے جس کا برصغیر کی سلفی تاریخ میں کبھی تصور تک نہ تھا۔
سہولت کاروں کا یہ گروہ سوشل میڈیا پر دانستہ یا نادانستہ سلفیت کا رد کرنے اور منہج سلف سے برگشتہ کرنے میں حتى المقدور لگا ہوا ہے۔ اس سے اہل بدعت کو خاطر خواہ فائدہ اور سلفیت کو بھرپور نقصان پہنچ رہا ہے۔
اس وقت ان کا وجود سلفی دعوت کے لیے کس قدر نقصان دہ اور ان کی تحریریں کس قدر زہر آلود ثابت ہورہی ہیں اس کا درست اندازہ سوشل میڈیا پر نشر ہونے والی ان کی ان شقاوت سے لبریز تحریروں سے ہوتا ہے جو سلفیت کے دفاع اور اس کی نشر واشاعت میں جاری ہونے والی تحریروں کا ہر ممکن کاؤنٹر کرنے کی غرض سے لکھی جاتی ہیں۔ اس وقت حال یہ ہے کہ کسی سلفی تحریر کے رد میں کسی بدعتی کی تحریر آئے نہ آئے برصغیر میں منتشر اس ٹولہ کی طرف سے کوئی نہ کوئی تحریر ضرور آتی ہے۔
اس گروہ کے جرائم متنوع اورنہایت سنگین ہیں۔ ایک طرف اس نے سلفی دعوت سے متاثر ہونے والے افراد کے دلوں میں وسوسہ پیدا کرنے کا کام کیا ہے تو دوسری طرف مخالفین کے دلوں میں اس مبارک دعوت کی ہیبت کو کم کرنے کا فرض ادا کیا ہے۔ ان کے مجرمانہ اعمال کے چلتے داعیوں کا ایک طبقہ کہیں نہ کہیں منہجی غیرت سے دستبردار ہوا ہے تو دوسرا طبقہ ان کے کرتوتوں سے ڈسٹرب ہوا ہے۔ ایک طرف یہ سلفی داعیوں کی راہ کا روڑہ بن رہے ہیں تو دوسری طرف سلفیت سے متاثر ہونے والوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا کر رہے ہیں۔ اس طرح سہولت کاروں کا یہ گروہ سلفی دعوت کو دوہرا نقصان پہنچا رہا ہے۔
سوشل میڈیا کا یہ مافیا صحیح منہج کی نشر واشاعت کرنے والوں کا حوصلہ توڑنے کی ہر ممکن کوشش کرتا اور انھیں طرح طرح کے القاب سے نوازتا ہے۔ان کی عیب جوئی کرتا ہے۔ موقع مل جائے تو انھیں بدنام کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ یہ چیزیں بلا شبہ دعوتی میدان میں ان کے اثر کو کم کرنے میں واضح کردار ادا کر رہی ہیں۔
یہ ٹولہ اسی پر بس نہیں کرتا بلکہ ایک طرف گمراہ کن نظریات کے حاملین ائمہ ضلال کی تلمیع کرتا، انھیں قابل قبول بنانے کی پیہم کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف ائمہ سلف اور سنت کے حاملین ومدافعین کو متشدد بتلاکر انھیں غیر معتبر کرنے اور ان سے لوگوں کو بیزار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کتاب وسنت کی ترجمان ان کی کتابوں کو متشددانہ افکار کا حامل بتا کر انھیں غیر موثوق اور غیر معتبر کرنے کی مذموم سعی کرتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس طبقہ کے نشانہ پر وہ ائمہ سلف اور اہل علم خصوصی طور پر ہوتے ہیں جو بدعات کے دشمن اور سنت کے رکھوالے ہیں۔ اسی طرح وہ کتابیں اس کا خصوصی ٹارگٹ ہوتى ہیں جو سنت کے احیا اور بدعات کا قلع قمع کرنے میں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بہت سارے بھولے بھالے سلفی نہ صرف ان گمراہ افراد سے جڑ کر ان کے باطل افکار ونظریات کو قبول کر رہے ہیں بلکہ ان ائمہ سے برگشتہ یا بد ظن ہو رہے ہیں جو سنت کے رکھوالے اور بدعات کے لیے ننگی تلوار ہیں۔
اس کی کرتوتوں کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ بدعتیوں کے تئیں حسن ظن قائم ہو رہا ہے۔ ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ان کی باتیں سننا عام ہو رہا ہے۔ جبکہ منہج سلف سے لوگ متنفر ہو رہے ہیں اور یہی اس کا مقصد ہے۔
یہ منہج سلف کی خود ساختہ تفسیر کرتے اور اس کو ہوائے نفس کے من پسند پیرائے میں ڈھالتے ہیں تاکہ لوگ اصل منہج سے بیزار ہوکر الگ ہو جائیں اور ان کا مقصد حاصل ہوجائے۔
باطل کا تعصب ان کے یہاں اس قدر ہے کہ اس کے احقاق و ترویج کی خاطر یہ تحریف وتاویل کا ہر حربہ اپناتے اور ہر سطح سے نیچے اتر جاتے ہیں۔ اس طرح یہ متعدد مواقع پر حق کے ضیاع کا کلیدی سبب بنتے ہیں۔
ان کے یہاں بدعتیوں کے تئیں کافی نرم گوشہ ہے۔ اتنا نرم کہ سلفیوں کے لیے اس کا عشر عشیربھی نہیں ہے۔ ایک طرف یہ بدعتیوں سے حسن ظن رکھتے اور انھیں پرموٹ کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں تو دوسرى طرف ان بدعتیوں اور منحرفین پر رد کرنے والوں کو بدنام کرنے کی پیہم کوشش کرتے اور لوگوں کو ان سے دور کرنے کی نا مبارک سعی کرتے ہیں۔
حالت یہ ہے کہ اہل حدیثوں میں موجود یہ طبقہ اپنی کم علمی اور کم ظرفی کے مختلف مظاہر سے سلفیوں میں نہ صرف انتشار پھیلا رہا ہے بلکہ ان میں گروہ بندی کی فضا بھی ہموار کر رہا ہے۔
یہ سلفی دعوت کے وہ نام نہاددانشور ہیں جن کا تعلق اہل حدیث گھرانوں سے ہے۔ یہ خود کو باور تو اہل حدیث اور سلفی کراتے ہیں مگر عملاً یہ اس کے ہر محاذ پر دشمن بنے ہوئے ہیں۔ اگر وقت رہتے ان کا منظم انداز میں علاج نہ کیا گیا اور ان کی اچھے سے سرکوبی نہ کی گئی تو آنے والے دنوں میں فکری آوارگی اور منہج بیزاری سے لبا لب یہ طبقہ سلفیت کے لیے انتہائی گھاتک ثابت ہوگا۔
یہ طبقہ اپنے اخلاق و کردار میں اخوانیت سے قریب تر ہے۔ عمداًیا سہواً بسا اوقات ان کا آلہ کار بھی بن جاتا ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر اس نے بعض اخوانی اور تحریکی افکار کے ساتھ ساتھ ان کےاخلاق کا بھی ایک حصہ اپنا لیا ہے۔ اصل چیز عمل اور موقف ہوتا ہے۔ جہاں زبان حال پوری قوت سے گویا ہو وہاں ضروری نہیں کہ زبان قال سے بھی اس کا اعلان کیا جائے۔ اہل علم پر یہ چیز مخفی نہیں ہے کہ بسا اوقات زبان حال زبان قال سے زیادہ قوى اور با اثر ہوتی ہے ۔
افکار سے اخلاق تک کا جو سفر اس طبقہ نے طے کیا ہے اس میں محض میڈیا کا دخل نہیں ہے۔ بلکہ اس میڈیائی اثر کے علاوہ بھی متعدد وجوہات اور مختلف اسباب ہیں۔ ان اسباب میں علمی وتربیتی اصالت کا فقدان، عقلانیت کے ساتھ ہوائے نفس کا غلغلہ اور تعالم سرفہرست ہے۔
دو اسباب اور ہیں۔ یہ دونوں اسباب مذکورہ بالا تینوں اسباب سے نہ صرف جڑے ہوئے ہیں بلکہ مشار الیہ افکار وخیالات نیز اخلاق وکردار کے لیے مہمیز کا کام کرتےہیں۔ ان کا تعلق انسانی نفسیات سے ہے۔ علامہ محمود شاکر رحمہ اللہ (ت: 1997م)نے اپنے ایک وقیع مقالہ میں ان کا ذکر کیا ہے۔ فرماتے ہیں:”يُوشِكُ تاريخُ الإسلامِ أن يُصبِحَ لَهْوًا على الألسِنَةِ، ولَغْوًا في الصُّحُفِ، ومَرْتعًا للظَّنِّ المُتَسَرِّع دُونَ اليَقينِ المُتَثَبِّتِ، وهَدَفًا لِكلِّ مُقتَحِمٍ على الحَقِّ بمثلِ جَرَاءَةِ الباطلِ، ومخاضةٍ يخوضُ فيها كلُّ من ملَك لسانًا ينطِقُ، أو عقلًا يُفكِّرُ، أو قلمًا يخُطُّ.
وإنما ابْتُلي زمانُنا بهذا لأسبابٍ كثيرةٍ:
أوَّلُها: أنَّ العصرَ الذي نعيشُ فيه يُعجِّل الناسَ عن تحقيقِ معنى الدِّينِ نفسِه في حقيقةِ قُلُوبِهم.
وآخِرُها: أنّ المسلمينَ في زمانِنا بلَغُوا مِن العَجْزِ، والقِلَّةِ، والهَوانِ على أنفسِهم، مبلَغًا مهَّدَ لشياطينِ الإنسِ والجنِّ مسالكَ كثيرةً إلى مَقرِّ الغُرورِ في بعضِ الأفئدةِ، فسوَّل لأصحابِها فيما سوَّل أن فهِموا الإسلامَ (فهمًا جديدًا).
فكانَ لهذه الكلمةِ سِحرُها حين مسَّتْ مكانَ الغرورِ والكبرياءِ من نُفُوسِهم، واحتملَهم هذا الغرورُ على أن يُسِيؤوا الظَّنَّ بما يفهَمون من ماضيهم، جُلِّه أو كُلِّه، وخَيَّلَ إليهم سوءُ الظَّنِّ أنَّ ذلك هو طريقُ الحَقِّ لإحياءِ دينِ الله في نفوسِهم، وإقامةِ شريعتِه في أرضِه.
ثمَّ خرَج بهم مَخرجًا أوقعَ في أوهامِهم أنَّهم قادِرُون على أن يُجَدِّدُوا أمرَ هذا الدِّينِ بمُجَرَّدِ النَّظرةِ الخاطِفَةِ المُعْتَسِفَةِ في كتابِ الله وسُنَّةِ رسولِ الله – صلّى اللهُ عليه وسلّم –، وفي تاريخِ أسلافِهم من المُسلِمين.” (جمهرة مقالات الأستاذ محمود محمد شاكر:2/970)
محمود شاکر -رحمہ اللہ- اپنے زمانے کے حالات پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قریب ہے کہ تاریخِ اسلام زبانوں پر کھیل کود کا سامان اور اخبارات میں لہو لعب کی چیز بن کر رہ جائے۔ تثبت ویقین کے بجائے وہ ایسے ظنون واوہام کی چراگاہ میں تبدیل ہوجائے جو جلد بازی اور عجلت پسندی کا نتیجہ ہو۔ ایسے کم ظرفوں کے نشانے پر آجائے جو حق کے خلاف ایسی جرأت کا مظاہرہ کرنے لگیں جو درحقیقت باطل کے خلاف مطلوب ہے۔ اسی طرح وہ لایعنی اور فضول بحث ومباحثہ کا ایسا میدان بن جائے جس میں ہر وہ شخص طبع آزمائی کرتا پھرے جو محض بولنے والی ایک زبان، سوچنے والی ایک عقل ، یا لکھنے والے ایک قلم کا مالک ہو۔
اس ابتلا وآزمائش کے متعدد اسباب ہیں جن میں پہلا سبب یہ ہے کہ جس زمانے میں ہم جی رہے ہیں اس میں عجلت کا عالم یہ ہے کہ لوگ اپنے دل کی گہرائیوں میں دین کا حقیقی معنی اتارنے میں جلد بازی سے کام لیتے ہیں۔
جبکہ اس کا آخری سبب یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں مسلمان خود اپنی نظروں میں جس طرح گر گئے ہیں اور عاجزی، کم مائیگی، بے بضاعتی اور ذلت ورسوائی کے جس مقام تک وہ پہنچ گئے ہیں اس نے شیطان کے لیے مختلف راستوں اور متعدد طریقوں سے بعض مغرور دلوں تک پہنچنا بہت آسان کردیا ہے۔ چنانچہ ایسے افراد کے دلوں میں وہ یہ شبہ ڈالنے میں کامیاب ہوگیا کہ انھوں نے “فہم جدید” کے نام سے فہم ِاسلام کا ایک نیا ورژن دریافت کر لیا ہے۔
جب ان کے دلوں میں موجود کبر وغرور اور عجب وخود پسندی کو اس “فہم جدید” کا سہارا ملا تو اس نے ان پر جادو سا اثر کیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے فہم کا وہ حصہ جس کا تعلق ان کے ماضی -یعنی: فہم سلف- سے تھا اس سے وہ مکمل طور پر بد ظن ہوگئے یا اس کا بیشتر حصہ انھیں پست اور کم تر لگنے لگا۔ چنانچہ ان کے سوء ظن نے انھیں یہ باور کرادیا کہ دین کا یہ “نیا فہم”-جو کہ خود ان کا ایجاد کردہ ہے -ہی ان کے نفس میں اللہ کے دین کے احیا کا درست راستہ اور اس کی زمین میں اس کی شریعت کے نفاذ کا صحیح ذریعہ ہے۔
پھر انھیں اس وہم وگمان نے آلیا کہ محض کتاب وسنت کا سطحی علم اور تاریخ اسلام پر سرسری نظر ہی انھیں اس قابل بنا دے گا کہ وہ مجدد کے عظیم منصب پر فائز ہوکر اس دین کی تجدید کا شرف حاصل کرلیں گے۔
علامہ محمود شاکر -رحمہ اللہ -کی یہ بات اپنے موضوع پر قول فیصل کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کی ان باتوں میں جو گہرائی ہے وہ اہل بصیرت پر مخفی نہیں۔ آپ ان سطور کو بار بار -کم از کم تین بار- پڑھیں اور سوشل میڈیا سے لے کر زمینی سطح تک موجود مفکروں اور نام نہاد دانشوروں کی تحریروں پر نظر ڈالیں۔ ان کے سطور اور بین السطور پر غور کریں۔ آپ کو بہت اچھی طرح یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ محمود شاکر -رحمہ اللہ- نےان چند سطروں میں دانشوروں کی تمام دانشوری اور ان کے آئیڈیل کرداروں کی ساری شعبدہ بازی کا خلاصہ کردیا ہے۔
ان سطور کی چمکتی روشنائی میں آپ نہ صرف اخوانیوں، تحریکیوں، اصلاحیوں اور مودودیوں کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کار دانشوروں کا کبروغرور سےپراگندہ ،احساس کمتری کی کوکھ سے جنم لینے والی احساس برتری کے بوجھ سے لرزتا، نفس امارہ سےدرماندہ اور نفس لوامہ سے نبرد آزما خجالت آمیز چہرہ بالکل صاف اور واضح طور سے دیکھ اور پڑھ سکتے ہیں، بلکہ ان کی تحریروں میں موجود سطحیت اور سفالت، تکبر اور عناد، ہٹ دھرمی اور دیدہ دلیری کی ایک نہایت اہم وجہ اور منہج سلف سے بے زارگی، اس سے بغض وعداوت اور نفرت وناپسندیدگی کا ایک نہایت اہم نفسیاتی سبب بھی جان سکتے ہیں۔ یہ بہت بڑی حقیقت ہے جسے نام نہاد مفکروں اور خود ساختہ دانشوروں کا ہٹ دھرم اور ڈھیٹ طبقہ ہزار حیلوں اور سیکڑوں بہانوں کے باوجود نہیں چھپا سکتا۔
اسباب ذکر کرنے سے پہلے علامہ محمود شاکر -رحمہ اللہ -نے اپنے زمانے کےجن افسوس ناک حالات اور تکلیف دہ صورت حال کا ذکر کیا ہے آج کا سوشل میڈیا اس کا عکس مبین ہے۔ غور کریں گے تو مماثلت کے ایسے واضح خطوط نظر آئیں گے کہ بے اختیار منہ سے نکل جائے گا: “ما أشبَھتِ اللَّیلۃُ البارِحۃَ”۔
ان پانچوں اسباب پر آپ غور کرلیں تو منہج سلف کے متبعین برصغیر کے اہل حدیثوں میں باطل افکار کی مسلسل زراعت کرنے میں مشغول اس سہولت کار طبقے کی ساری کہانی بخوبی سمجھ میں آجائے گی۔
سوشل میڈیا پر متحرک آوارہ مزاجوں کا ایک اور گروہ ہے جو اس کے گلیاروں میں ہمیشہ چھچھواتا رہتا ہے۔ یہ ہر موقع ومناسبت سے ان سہولت کاروں کا مختلف انداز میں سپورٹ کرتا ہے۔ بظاہر تو یہ ٹولہ محض انجوائے فرماتا ہے مگر بباطن اس کا ہوائے نفس اسے سہولت کاروں کا معاون بنائے رکھتا ہے۔ بین السطور پڑھیں گے تو بڑی آسانی سے آپ کو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ یہ ٹولہ دراصل ان سہولت کاروں کا سہولت کارہے۔
یہ سارے مل کر بیک وقت سلفی دعوت کے دانستہ ونادانستہ دشمن بنے ہوئے ہیں اور حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اس وقت سلفیوں کے مقابل اہل بدعت کا محاذ یہی سنبھالے ہوئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اہل حدیث علماء اور سلفی دعاۃ اس وقت ایک اضافی مشن پر اپنی انرجی صرف کر رہے ہیں۔
ایک وقت تھا جب بر صغیر کے اہل حدیث اپنی سلفیت اور اتباع سنت میں ضرب المثل تھے۔ علم کے ساتھ ساتھ ان کا منہج اور عمل سب کچھ مثالی تھا۔ ان کے دعوتی کاز زبان سے زیادہ عمل کی مرہون منت ہوتے تھے۔ مگر آج معاملہ بہت محتلف ہے۔ علم میں کمی اور عمل میں کوتاہی تو ہے ہی، معاملہ ان کے عقیدہ اور منہج تک پہنچ چکا ہے۔ حالت یہ ہے کہ اہل حدیثوں کی طرف منسوب افراد اور ان کے اداروں سے فارغ التحصیل فضلاء نہ صرف باطل افکار کے حامل ہیں بلکہ ان میں سے کئی تو ان افکار کے پرچارک اور پورے جوش وخروش سے ان کے مبلغ بنے ہوئے ہیں۔
کسی بھی قوم کا تخلف اور اس کا انحطاط علم سے ہو کر عمل تک پہنچتا ہے۔ فکر و آگہی اور شعورواحساس اس کا آخرى شکار ہوتا ہے۔ جب کسی قوم یا جماعت کی فکر شکار ہونے لگے تو جان لیں کہ شکارى اب جال سمیٹ کر واپسی کی تیاری کر رہا ہے۔ بلا شبہ اہل حدیثوں کے لیے موجودہ صورت حال بہت ہی نازک، تکلیف دہ اور پریشان کن ہے کہ وہ علمی عملی وفکرى تخلف کے اس نقطہ پر پہنچ رہے ہیں اور علم وعمل سے گزر کر اب ان کی فکر وآگہی اور ان کے احساس وشعور کا شکار ہو رہا ہے۔
اس نازک اور دل خراش صورت حال کا ایک نہایت تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ہر سو سلفیت اور منہج سلف سے جنگ جاری ہے؛ غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے بھی اس جنگ میں باقاعدہ شریک ہوگئے ہیں۔ صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ شرعی مصطلحات کا باقاعدہ مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ علم کی طرف منسوب بعض افراد تو سلفیت سے متعلق بعض مصطلحات ہی سے بے نیازی کا درس دے رہے ہیں۔یہ وہ لوگ کر رہے ہیں جو خود کو اہل حدیث یا سلفیت کا پاسدار سمجھتے ہیں۔ موجودہ صورت حال کا ایک نہایت دل خراش پہلو یہ بھی ہے۔
سعودی عرب اپنے وجود سے صحیح اسلام کا سب سے ٹھوس اور مضبوط نمائندہ ہے۔ منہج سلف کا سب سے بڑا پاسدار اور حامی ہے۔ سلفیت کی ترویج اور اس کی نشر واشاعت میں اس کا بے مثال عالمی کردار ہے۔ منہج سلف کی پاسداری نے عالمی سطح پر سعودی عرب کو ہر قسم کے دشمن عطا کیے ہیں۔ غیروں کے ساتھ ساتھ اہل اسلام کا ایک بڑا طبقہ صرف اسی لیے اس کا دشمن ہے۔ خیرخواہوں کا حلقہ اگر ایک لمحہ کو اسے فراموش بھی کر دے تو دشمن اسے کبھی فراموش نہیں کرتا۔ سعودی عرب سے اس کی ساری دشمنی عقید ہ ومنہج کی دشمنی ہے۔ بہانے لاکھ جمع کر لیے جائیں اصل سبب یہی ہے۔ یہ دشمنی یہ نفرت یہ بغض یہ حسد اس معیار کو پہنچا ہوا ہے کہ دشمن غلطی کرے تو خوشی ہوتی ہے کیونکہ اس پر نقد کرنے کا موقع ملتا ہے۔ طنزو تشنیع کا دروازہ کھلتا ہے۔ شبیہ بگاڑنے میں مدد ملتی ہے۔ مگر یہی دشمن نیکی کرے تو تکلیف ہوتی ہے کیونکہ اس سے اس کا قد اونچا ہوتا ہے۔ نیک نامی بڑھتی ہے۔ سرخروئی نصیب ہوتی ہے۔ مخالفین کی زبانوں پر تالے لگ جاتے ہیں۔ سناٹا چھا جاتا ہے۔ بلا شبہ کسی بھی قوم یا فرد سے بغض وعداوت کا یہ انتہائی درجہ ہے ۔
ان دنوں فلسطین کا مسئلہ ایک بار پھر چرچا میں ہے۔ علاقہ میں جنگ جاری ہے۔ پورا مشرق وسطى اس جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ یہ جنگ رکے گی یا آگے بڑھے گی؟ جب ختم ہوگی تو کیا صورت حال نکل کر سامنے آئے گی؟ ابھی یقینی طور سے کچھ کہنا بہت مشکل ہے۔ تاہم اس جنگ کے منظر اور پس منظر نے کئی چہروں سے اچھی طرح نقاب اٹھا دیا ہے۔ وہ نفوس جو گومگو کی کیفیت سے دوچار یا اضطراب کا شکار رہتے تھے بہت حد تک کہانی اور اس کے کرداروں کو سمجھنے لگے ہیں۔ تاہم مرض جن کے قلوب واذہان میں سرطان بن کر رگ رگ میں سرایت کرچکا ہے ان کی حالت اب بھی وہی ہے۔
سعودی عرب نے جس قدر فلسطینی مسئلہ کو سپورٹ کیا ہے۔ اس کی مدد کی ہے۔ دنیا کے کسی ملک نے نہیں کی ہے۔ اس کی ہمیشہ کوشش رہی کہ یہ مسئلہ جلد از جلد حل ہو اورایک آزاد ملک کی شکل میں فلسطین کا قیام ہو۔ بین الاقوامی مسائل کی فہرست میں یہ مسئلہ سعودی عرب کے یہاں ہمیشہ اول نمبر پر رہا ہے۔ تاہم جب جب سعودی عرب اس مسئلہ کو حل کرانے کے قریب پہنچا دشمنان اسلام نے اسے ناکام کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ایران کی مجوسی حکومت اور فلسطینی قضیہ سے جڑی اس کی حلیف اخوانی لابی کا اس میں کلیدی کردار رہا ۔
گزشتہ سال بھی کچھ ایسا ہی ہوا جب سعودی عرب کی قیادت میں فلسطینی قضیہ کے تئیں جاری مفاہمتی گفتگو اور اس کے نتیجہ میں ہونے والے ممکنہ سمجھوتہ کو سبوتاژ کرنے کے لیےایران کے اشارے پر حماس نے 7/اکتوبر 2023م کو اسرائیل پر حملہ کردیا اور اسے طوفان اقصى کا نام دیا۔ یہ ضمیر فروش اس امید میں تھے کہ ہمیشہ کی طرح سو پچاس لاشوں کی سوداگری سے بات ختم ہوجائے گی اور ان کا منصوبہ کامیاب ہوجائے گا۔ مگر اس بار ایسا نہیں ہوا۔
نتائج ہمیشہ حسب توقع نہیں نکلتے۔ بیع وشراء اور خیانت وبے ایمانی کا ایک سلسلہ شروع ہوا ۔ معاملہ کہیں سے کہیں پہنچ گیا اور اللہ تعالى نے سنت الہی : ﴿وَكَذَلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ﴾ [الأنعام: 129] کے مطابق ان ظالموں پر ظالم دشمنوں کو اس طرح مسلط کیا کہ ضمیر فروش اور لاشوں کے سوداگر مٹی میں ملنےلگے۔ حماسی منافقوں کے بعد اب خبیث رافضی قیادتوں کی صفائی کا کام جاری ہے۔ ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ جنگ کے شعلے پوری شدت سے بھڑک رہے ہیں۔ بات ان کے آقا تک پہنچ گئی ہے اور اس وقت مجوسیوں کا اپناآنگن بھی شعلوں کی لپیٹ میں ہے جس کی زد سے بچنے کے لیے رافضی وفود عرب ممالک کے چکر لگا رہے ہیں۔ آگے کیا ہوگا یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ تاہم اتنا ظاہر ہے کہ ان منافقوں اور سوداگروں کے پاؤں کےنیچے سے زمین کافی کھسک چکی ہے اور ان کے مزعومہ قوت اور پروپیگنڈائی شجاعت کا پانی کافی اتر چکا ہے۔
اس بار کھیل اس قدر بگڑ گیا ہے کہ معاملہ سنبھالے نہیں سنبھل رہا ہے۔ ایک طرف کربلائی میڈیا پورا زور صرف کر رہی ہے کہ کسی طرح اس بگڑتے کھیل کو سنبھالا جائے تو دوسری طرف صلیبی اور صیہونی میڈیا اپنے مفادات کی حفاظت میں لگا ہوا ہے۔ حسب عادت اخوانی ، تحریکی اور مودودی میڈیا روافض کا دم چھلہ بنا ہوا ہے۔ سہولت کاروں کی ایک جماعت گومگو کی کیفیت میں ہے۔ صورت حال ایسی ہے کہ نہ نگلتے بن رہی ہے نہ اگلتے۔ تاہم بے شرموں کی ایک جماعت ابھی بھی ہے جو حماقت وخیانت اور مکرو نفاق سے چھلکتی اس خبیث سیاست کو سرٹیفائی کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ ہر نئے موقف پر اس کا سر بدل جاتا ہے اور آنے والا ہر نیا نتیجہ اس کی گفتگو کا محور ہی بدل دیتا ہے۔ بس بے شرمی اور ڈھٹائی ایسی پائی ہے کہ کسی صورت ساتھ نہیں چھوڑتی۔
اس ٹولہ سے اگر پوچھ لیا جائے کہ جب اپنے اندر طاقت نہیں تھی تو کس کے اشارے پر تم نے اہل غزہ کو جنگ کی آگ میں جھونکا؟ اس عدو لدود اور ازلی دشمن سے لڑنے کے لیے جس کے ساتھ تقریبا تمام امریکہ اور یورپ کھڑا ہے؛ تم نے کن ممالک سے مشورہ کیا ؟اس نام نہاد طوفان سے فلسطینیوں کو حقیقی معنوں میں کیا ملا؟ اس قدر تباہی وبربادی کے بدلہ میں انھیں کیا حاصل ہوا؟ اب جب کہ غزہ اور اہل غزہ بے حال ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ان کی جان، ان کا مال، ان کی عزت وآبرو، ان کا گھر بار، ان کی زمین جائدادسارا کا سارا کچھ اس طرح لٹا ہے کہ وہ کہیں کے نہیں رہ گئے ہیں۔ ایسی صورت میں اس جنگ سے انھیں کون سی منفعت حاصل ہوئی ہے جو ہمیں نظر نہیں آرہی ہے؟ تو اس ڈھیٹ اور بے شرم ٹولہ کی حالت کچھ ویسے ہی ہوگی جیسے برزبان جریر کسی مہمان کو دیکھ کر ایک تغلبی کی ہوتی ہے:
والتَّغْلَبِیُّ إذَا تَنَحْنَحَ لِلْقِرَى
حَکَّ اسْتَہُ وتَمَثَّلَ الأمَثَالَا
ایسے سوالوں کے جواب میں یہ سب کچھ کہے گا مگر اصل موضوع پر بات نہیں کرے گا۔ اگر کسی طرح اصل موضوع پر آیا بھی تو ایسی دور ازکار باتیں کرے گا اور اس قدر دور کی کوڑی لائے گا جو اہل دانش وبینش کے یہاں مردود ومرفوض ہوگی۔ ایسے فوائد گنائے گا جنھیں وہ خود اس سے عشر عشیر قیمت پر -بلکہ کسی قیمت پر- نہیں قبول کرے گا جو اہل غزہ نے ادا کی ہے۔ حماقت وجہل اور ڈھٹائی وبے شرمی سے مرکب اس ٹولہ کی شروع سے کچھ ایسی ہی حالت رہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کا حساب کتاب اور نفع نقصان کا کلکولیشن بدلتا رہا ہے۔ جب حماقت کی شروعات ہوئی تو یہ کچھ اور کہہ رہا تھا۔ جب بات مزید بڑھی تو کچھ اور کہنے لگا۔ جب معرکہ گرمایا اور واضح طور سے نقصان نظر آنے لگا تو کچھ اور تاویل کرنے لگا۔ اب جب سب کچھ لٹ چکا ہے اور ہر طرف صرف دھواں ہی دھواں نظرآرہا ہے تو کچھ اور فائدہ بتا رہا ہے۔ اس طرح اس کے مواقف بدلتے رہے ہیں اور نفع نقصان کا پیمانہ وقت کے ساتھ ساتھ چینچ ہوتا رہا ہے۔ بدلی نہیں ہے تو صرف ایک چیز اور وہ ہے ان رافضیت زدہ اخوانی منافقوں اور حماسی احمقوں کا دفاع جو ایران کی غلامی کرتے کرتےخود تو زمیں بوس ہوئے ہی غزہ کو بھی راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا اور مجوسیت کے چکرویو میں پھنس کر اپنے ہی وطن کو تار تار کردیا۔
آخر نفاق کا وہ کون سا مقام ہے جہاں پہنچ کر اِن جذباتیوں کو اُن حماسی منافقین کی موت پر بہت دکھ ہورہا ہے جو فکری اور سیاسی طور پر بالکل رافضیت زدہ ہیں؟ تناقض کا وہ کون سا مرتبہ ہے جس سے سرفراز ہوکر علم سے کنگال مگر جوش وجذبات سے لبریز اِن دانشوروں کو اُن قیادتوں کی ہلاکت پر بہت تکلیف ہورہی ہے جو نہ صرف رافضیوں اور مجوسیوں کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں بلکہ ان کے اشاروں پر ناچتے اور اپنے مبارک وطن کا سودا کرتے رہے؟ اُن بے ضمیروں اور لاشوں کے سوداگروں کی بربادی پر تو یہ جذباتی ٹولہ نوحہ کناں ہیں؛ مگر سیکڑوں معصوم فلسطینی بچوں کی بے رحم موت پر، ہزاروں نہتے فلسطینیوں کے قتل پر، لاکھوں اہل غزہ کے بے گھر ہونے اور ان کی زمین وجائداد کے لٹنے پر، غزہ کے کھنڈر بننے پر؛ انھیں کوئی ملال نہیں ہے۔ اگر ہے بھی تو وہ ایسے ہے جیسے نسبتا کوئی چھوٹی سی بات ہو اور ان کلاکاروں کے مقابلہ میں ان کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو۔ یہ فلسطین اور غزہ کے ان سوداگروں کے غم میں گھلے جارہے ہیں جو دشمنان اسلام کے اشاروں پر مسئلہ فلسطین کا سودا کرتے رہے۔ فلسطینی قضیہ کے ہر ممکنہ حل کی راہ میں رکاوٹ بنتے رہے۔ فلسطین سے حقیقی محبت کرنے والوں کے ہر منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کی سعی مذموم کرتے رہے اور آج ہزاروں اہل غزہ کو قتل اور لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کرواکر؛ شہداء کی لسٹ میں سب سے پہلے اپنا نام درج کروا رہے ہیں۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ برصغیر کے اخوانی، تحریکی اور سہولت کار انھیں دھڑا دھڑ جنت کی سرٹیفکٹ بھی دے رہے ہیں۔ جتنی سرٹیفکٹ انھوں نے ان سوداگروں کو بانٹی ہے اتنی تو خود اہل غزہ کے حصے میں نہیں آئی ہوں گی۔
آپ بغور ان کی تحریروں کا جائزہ لیں! علم کی اصالت سے خالی، حقائق کی بصیرت سے محروم، خالی جوش اور کھوکھلے جذبات سے لبریز اس طبقہ کو اہل فلسطین سے زیادہ ان رافضی چمچوں اور مجوسی آلہ کاروں کا غم کھائے جا رہا ہے جنھوں نے غزہ اور اہل غزہ کو اس قابل رحم حالت تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان کا دفاع اسے غزہ اور اہل غزہ کے دفاع سے زیادہ عزیز ہے۔ اس دفاع کی خاطر یہ ٹولہ ہمہ وقت ہر سطح تک اترنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ واللہ المستعان!
اگر چہ سازش طشت ازبام ہونے کی وجہ سے اس بار وہ کامیابی نہیں مل رہی ہے جو ہمیشہ ملتی تھی تاہم ایک زمانے سے یہودی، نصرانی، صیہونی، صلیبی، کربلائی ، تحریکی اور مودودی میڈیا کے اتحاد نے جو ہمہ جہت کام کیا ہے اس کا اثر بہت حد تک باقی ہے۔ اس سحر سے بہت سارے افراد ابھی تک نہیں نکل سکے ہیں۔ اگرچہ با بصیرت افراد اور حالات پر باریک نگاہ رکھنے والے معاملات کو بہت حد تک سمجھنے لگے ہیں تاہم اہل اسلام کا ایک بڑا طبقہ اب بھی اسی ضلال قدیم کا اسیر بنا ہوا ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ سعودی عرب کے اس قدر مخلصانہ جہود، ہمہ جہت مساعی اور بے نظیر خدمات کے باوجود ابھی بھی حال یہ ہے کہ جس ایران نے محض گزشتہ پندرہ سالوں میں تقریبا دو کروڑ سنیوں کو قتل اور بے گھر کیا ہے وہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے یہاں اسلام اور مسلمانوں کا مخلص بنا ہوا ہے اور سعودی عرب جس نے ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کى بے نظیر خدمات انجام دی ہیں وہ مجرم بنا ہوا ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کی مدد سے ایران نے نہ صرف پھلتے پھولتے سنی ممالک پر قبضہ کرلیا ہے بلکہ ان کی ڈیموگرافی بدلنے کے لیے مسلسل کوشاں ہے۔ صرف عراق میں ایران کی اس مجوسی اور رافضی حکومت نے جو کیا ہے اور کر رہی ہے وہ کسی فلسطین سے کم نہیں ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ ہے اور عراق پر یہودی پیداوار اور یہود نواز قوم روافض کا۔ عراق کی کہانی اس قدر درد ناک ہے کہ اس کی رپورٹوں پر نظر ڈال لیں یا ڈاکو مینٹریاں دیکھ لیں تو ایک سلیم طبیعت انسان کی نیند حرام ہوجائے۔ اسے بے خوابی کی شکایت ہونے لگے۔
اس مجوسی سلطنت کی اعلى قیادت صراحت کے ساتھ عراق پر اپنا حق جتاتی اور اسے اس قدیم کسروی سلطنت کا حصہ مانتی ہے جو اسلام سے پہلے قائم تھی ۔ جس کے احیا کے لیے ایران کی موجودہ حکومت کوشاں ہے۔ چنانچہ حسب معاہدہ جب صلیبیوں نے عراق کو ان مجوسی رافضیوں کے سپرد کیا تو ان کی بعض اعلى ترین قیادت نے بالکل کھل کر اعلان کیا: “إنَّنَا نُعْطِي لأَهْلِ السُّنَّةِ فِي العِرَاقِ ثَلاثَةَ خَياراتٍ لا رَابِعَ لَها: إمَّا أنْ يَتَشَّيَّعوا، أَوْ أنْ يَخْرُجُوا مِنَ العِراقِ، أو أنْ يُقتَلوا”۔ یعنی: ہم عراق میں سنیوں کو صرف تین اختیار دے رہے ہیں: یا تو وہ شیعہ بن جائیں۔ یا عراق سے نکل جائیں۔ یا پھر مرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ اس دن سے آج تک بالکل یہی کچھ ہو رہا ہے۔
بغداد میں باقاعدہ ایسے ریڈ زون بنا دیے گئے ہیں جہاں سنیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ جبکہ یہ کبھی ان کے علاقے ہوا کرتے تھے۔ سنی علاقوں میں غیرعراقی رافضیوں تک کو لا لا کر پورے پلان کے تحت بسایا جا رہا ہے تاکہ عراق کی ڈیموگرافی بدلی جاسکے۔ ایک طرف اس طرح کے شنیع اعمال جاری ہیں۔ دوسری طرف ایران اسلام اور مسلمانوں کی خیرخواہی کا ڈرامہ بھی بڑی خوبی سے پلے کر رہا ہے۔ تیسری طرف بر صغیر کا کربلائی اور تحریکی میڈیا نہ صرف اسے فل سپورٹ بھی دے رہا ہے بلکہ حتى المقدور پروموٹ بھی کر رہا ہے۔
صدام حسین نے اپنے زمانے میں فلسطینیوں کی بھرپور مدد کی تھی۔ مہاجر فلسطینیوں کو پوری عزت وتکریم کے ساتھ لاکر عراق میں بسایا تھا۔ ہر طرح کی سہولیات فراہم کی تھی۔ بغداد کے پوش علاقوں میں وہ گھر وں اور دوکانوں کے مالک تھے اور پوری شان وشوکت سے رہتے تھے۔ جب ایران کی مجوسی حکومت وہاں پر قابض ہوئی تو پورا نقشہ بدل گیا۔ ظاہر ہے جب وہاں کے مقامی سنیوں کو انھوں نے کہیں کا نہیں چھوڑا تو ان مہاجرین کو کیسے رہنے دیتے۔ چنانچہ ان فلسطینیوں سے ان کے گھر چھین لیے گئے۔ باقاعدہ ان میں رافضیوں کو لا کر بسایا گیا۔ ان کے کاروبار پر قبضہ کرلیا گیا۔ ان کی ایک بڑی تعداد کو قتل کردیا گیا ۔ جو بھاگ سکے وہ بھاگ گئے۔ تقریباً پچاس ہزار فلسطینی صرف بغداد میں اپنے اپنے گھر اور کاروبار سے محروم ہو کر آج خیموں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ کبھی اپنے خوبصورت گھر وں اور قابل رشک محلات میں پوری شان وشوکت سے رہتے تھے۔ مصیبت کی اس گھڑی میں ان فلسطینیوں نے حماسی قیادتوں کو پکارا۔ ان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھا۔” ولکنْ لا حیاۃَ لِمَنْ تُنَادِي”۔ بھلا حماس اور حماسی قیادت ایران کی مجوسی حکومت کے خلاف کیسے جا سکتی ہے؟ وہ فلسطین کے خلاف جا سکتے ہیں۔ فلسطینیوں کا سودا کر سکتے ہیں۔ خود کو ہلا کت میں ڈال سکتے ہیں ۔مگر ایران کی مجوسی حکومت کے خلاف کبھی نہیں جاسکتے۔ ہاں اس رافضی سلطنت کی خاطر عالم عرب سمیت ساری دنیا کے خلاف جا کر اپنی قبر ضرور کھود سکتے ہیں۔
جو کچھ عراق میں ہوا یہ کوئی پہلا حادثہ نہیں تھا۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا جب ان رافضیوں نے فلسطینیوں کے ساتھ ایسا بہیمانہ سلوک کیا ہو۔ اس سے بہت پہلے 1982م میں لبنان میں موجود صبرا اور شاتیلا کے خیموں میں رہنے والے فلسطینی پناہ گزینوں کے ساتھ جو دلخراش اور ناقابل فراموش مذبج خانہ بنایا گیا تھا اس میں بھی ان رافضیوں نے بھرپور ہاتھ بٹایا تھا۔ صبرا اور شاتیلا میں انجام دیا جانے والی سفاک خونریزی فلسطین کا ایسا زخم ہے جو آج تک رس رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ وہ رافضی اور مجوسی جو آج عراق میں اور کل لبنان میں انھی فلسطینیوں کے ساتھ ایسا بہیمانہ اور سفاکیت سے لبریز سلوک کر سکتے ہیں وہ فلسطین کی پاک سرزمین میں بھلا ان کے لیے کیوں کر مخلص ہو سکتے ہیں؟ ایران کے دم پر چلنے والی عسکری تنظیمیں کیا ایران کی مرضی کے خلاف کام کر سکتی ہیں؟ رافضیوں کے اشاروں پر ناچنے والے اور مجوسیوں کا جوتا اٹھانے والے دم چھلے کیا ایران کی اسلام دشمنی کے حصار سے باہر نکل سکتے ہیں؟ مختصرا ً یہ کہ کیا ایران کی یہ مجوسی حکومت اور اس کے ٹکڑوں پر پلنے والے رافضی وغیر رافضی اسلام اور مسلمانوں کے مخلص ہو سکتے ہیں؟ پھر یہ ڈرامہ بازی کیوں ہے؟
نفاق کی تہہ در تہہ چادروں میں لپٹی ہوئی یہ سیاست در اصل اسلام اور مسلمانوں کی دشمنى پر مبنی ہے۔ اس کا خمیر ہی اسلام دشمنی پر اٹھایا گیا ہے۔ لہذا یہ کچھ بھی ہو سکتے ہیں اسلام اور مسلمانوں کے مخلص نہیں ہو سکتے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس دل خراش داستان کے کرداروں پر نفاق کی تہہ در تہہ اتنی چادریں تنی ہوئی ہیں کہ اچھے بھلے لوگ حقیقت تک نہیں پہنچ پاتے اور شعوری یا غیر شعوری طور پر اسی راہ پر چل پڑتے ہیں جو دشمنان اسلام کے منصوبوں اور ان کی پلاننگ کے عین مطابق ہوتا ہے۔
کیا اہواز، کیا عراق، کیا شام ،کیا لبنان، کیا یمن، ہر جگہ رافضیت کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور مجوسی اژدہا منہ کھولے کھڑا ہے۔ شام کی نصیری حکومت کی مدد سے وہاں جو کچھ حزب اللات نے کیا وہ اپنی دل خراشی میں ایک الگ ہی قسم کی داستان ہے۔ یہاں حزب اللات نے پہلے سنیوں کو اغوا کرکے انھیں شام اور لبنان میں سرنگیں کھودنے پر مامور کیا۔ وہی سرنگیں جن میں یہ چھپتے اور عوام کو آگ اور خون کے حوالہ کرکے خود پناہ لیتے ہیں۔ جب کام ختم ہوگیا تب انھیں قتل کرکے ان کے اعضاء وجوارح کی تجارت کی۔ ایک رافضی اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے بغض وعداوت میں کہاں تک جا سکتا ہے یہ جاننے کے لیے آپ اہواز، عراق، شام، لبنان اور یمن میں ان کے بہیمانہ اعمال پر مبنی رپورٹیں پڑھیں۔ ان پر بنائی گئی ڈاکومینٹریاں دیکھیں۔
کیا ایسے رافضی اسلام کے مخلص ہو سکتے ہیں؟ ان کے اشاروں پر ناچنے والے مسلمانوں کے کام آ سکتے ہیں؟ پھر یہ فیلق القدس کیا ہے؟ یہ فلسطین کی آزادی کا نعرہ کیا ہے؟ یہ حماس کا تعاون کیا ہے؟ یہ اسی ایرانی سیاست کا حصہ ہے جس کی بنیاد تقیہ پر رکھی گئی ہے۔ یہ اسی رافضی خباثت کا جزء لاینفک ہے جو یہودیت کے خمیر سے اٹھی ہے ۔ یہ اسی قدیم کسروی اور مجوسی مکرو فریب کا پرتو ہے جسے ولایت فقیہ کا چولا پہناکراستعماری قوتوں نے میدان میں اتارا ہے۔ جھوٹ اور نفاق جس کے بنیادی عقائد میں سے ہیں۔ عیاری، مکارى اور چالبازی جس کے اعمال و کردار کا کلیدی حصہ ہیں۔
میدان کارزار میں سرگرم اور اس خونیں معرکہ سے قریب ممالك میں سے اگر کسی کو ایران کی خبیثانہ سیاست سے سب سے کم نقصان پہنچا ہے تو وہ اسرائیل ہے۔ ایران کے پڑوسی سمیت باقی سارے ممالک اس سے پریشان اور اس کی اسلام دشمن سیاست سے مضطرب اور بے چین ہیں۔
صرف گزشتہ پندرہ سالوں میں اسلام کو جتنا نقصان ایران اور اس کے حلیف رافضیوں نے پہنچایا ہے، اسلام کی پوری تاریخ میں اس قدر نقصان یہودیوں نے اسلام کو نہیں پہنچایا؛ ان سب کے باوجود اسی یہودی نصرانی صیہونی صلیبی کربلائی تحریکی اور مودودی میڈیا کا کمال ہے کہ اہواز، عراق، شام، لبنان، یمن جیسے ممالک میں اس قدر شنیع اعمال اور قبیح کردار کے باوجود ایران آج بھی مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کے یہاں سعودی عرب سے زیادہ مخلص اور مسلمانوں کا مسیحا ہے۔ اسلامی حکومت کا نمونہ ہے۔ خلافت اسلامیہ کا ماڈل ہے۔ عالم اسلام کا مخلص ہے۔ وہی عالم اسلام جس کے تقریبا دو کروڑ افراد کو صرف پندرہ سالوں میں ایران نے قتل اور بے گھر کیا ہے۔
ایران کی یہ گھاتک اسلام دشمنی اس لیے بھی سنگین ہو جاتی ہے کہ روئے زمین پر شاید ہی کوئی ایسا مسلمان ملے جو یہود ونصارى اور صیہونیوں صلیبیوں کو اپنا دشمن نہ سمجھتا ہو، انھیں اسلام کا عدو لدود نہ گردانتا ہو۔ بھلے ہی اس کا ذاتی تعامل مجبوری یا غیر مجبوری میں ان کے ساتھ کیسا بھی ہو۔ مگر آج بھی اہل اسلام کا ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو ایران اور رافضیوں کو نہ صرف اسلام کا خیر خواہ سمجھتا ہے بلکہ ایران کی رافضی حکومت اور مجوسی سلطنت کو اسلامی حکومت کا نمونہ اور نمائندہ گردانتا ہے۔ اسے عالم اسلام کا قبلہ وکعبہ سمجھتا ہے۔ اس سے ولا کی بنیاد پر تعلقات رکھتا اور اس سے محبت کی تلقین کرتا ہے۔ اس کے لیے نیک خواہشات رکھتا اور اسے ان اسلامی ممالک پر ترجیح دیتا ہے جو توحید کا قلعہ نیز اسلام اور مسلمانوں کے حقیقی مخلص ہیں۔ یہ چیز نفاق سے لبریز رافضیت کی اسلام دشمنی اور اس سے نکلنے والے سنگین نتائج وخطرات کو مزید سنگین بناتی ہے۔
بلا شبہ یہودی ہمارے ازلی دشمن ہیں۔ صلیبی ہر میدان میں ہم سے بر سر پیکار ہیں۔ یہ ایسا نقطہ ہے جس پر شاید ہی کوئی باشعور مسلمان اختلاف کرے۔ ان کے ساتھ اس کا کیسا بھی معاملہ ہو مگر اس بات کی صداقت میں اسے ادنى سا شک بھی نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک تسلیم شدہ اور متفق علیہ امر ہے۔ مگر یہ کون سی حماقت یا مکاری یا دل کا مرض ہے کہ ہم گھر کے اس دشمن پر پردہ ڈالنے کے لیے جو ہمیں ہمارے اسی جانی دشمن کے ہاتھوں فروخت کرنے چلا ہے؛ اپنے اس معروف اور مشہور جانی دشمن کو ڈھال بنا لیں۔ اپنی صفوں میں موجود اس عدو لدود اور منافق کو دنیا کی نظروں سے چھپانے، اس کی سنگینی کو کم کرنے، مختلف انداز میں دل کی گندگی باہر نکالنے اور فکری تلوث سے فضا کو پراگندہ کرنے کے لیے ایک متفق علیہ دشمن کا نہایت چالاکی سے سہارا لیں۔ اس کے نام کا پوری مکاری سے استعمال کریں۔ گھر کے اس منافق کو تمام تر سنگینیوں کے باوجود محض اس لیے چھوڑ دیں کہ تمام تر نفاق کے باوجود ہمیں اس سے یک گونہ ہمدردی ہے۔ ہمارا نفس امارہ اس کا گرویدہ ہے۔ یہ فلسطین اور اہل فلسطین کے ساتھ ہمدردی نہیں بلکہ کھلی منافقت ہے۔
جب تک منافقین اپنی صفوں میں رہیں گے دشمن سے جنگ بہت مشکل ہے۔ پہلے اپنی صفوں کو صاف کرنا پڑے گا۔ ان میں موجود دشمنوں سے نجات حاصل کرنی پڑے گی۔ پھر دیگر دشمنوں سے نمٹنا -ان شاء اللہ- بہت آسان ہوجائے گا۔ جب تک اپنی صفوں میں منافق موجود رہیں گے آپ کسی دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ہماری صفوں میں موجود دشمن دراصل ہمارے خارجی دشمن ہی ہیں جو کسی اور شکل میں ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ہمارے درمیان ان کی موجودگی سے ہمارا خارجی دشمن مضبوط ہے۔ ایسے داخلی دشمن کی سنگینی اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب لوگ اسے پہچان نہ پا رہے ہوں اور خطرے کا نشان اس وقت کافی اوپر چلا جاتا ہے جب اس منافق دشمن کو قوم کا ایک بڑا طبقہ خیرخواہ اور مخلص سمجھ رہا ہو۔ ایسی صورت میں اگر بدقسمتى سے یہ داخلی دشمن اور منافقوں کا گروہ میدان سیاست سے لے کر میدان جنگ تک ہمارى نمائندگی کرنے لگے اور اسلام دشمن عناصر بڑی چالاکی سے اسے ایسی پوزیشن پر لے آئیں کہ وہی ہمارے سیاہ و سفید کا مالک بن جائے؛ تو آپ خود سوچیں کہ اس منافق دشمن سے ہمیں کیا کیا اور کس درجہ کا نقصان پہنچے گا۔
تاریخ کے صفحات اٹھا کر دیکھ لیں۔ دور نہ جائیں برصغیر کی تاریخ پر ہی ایک سرسری نظر ڈال لیں۔ جب تک اپنی صف درست نہیں ہوتی۔ منافقوں اور کالی بھیڑوں سے پاک نہیں ہوتی، کسی خارجی دشمن پر فتح پانا محال سا ہے۔ جن لوگوں نے منافقوں کو ساتھ رکھ کر جنگ کرنے کی غلطی کی ان کا حشر سامنے ہے۔ برصغیر کی تاریخ نہ صرف اس کا ایک عملی نمونہ ہے بلکہ ایک عجیب مشابہت بھی رکھتی ہے۔
دشمن سے جنگ کرنے سے پہلے اور میدان کارزار میں اترنے سے قبل اپنی صفوں میں موجود منافقین سے نمٹنا اور ان سے نجات حاصل کرنا، خاص طور سے جب وہ منافق نہ صرف ہماری صفوں میں ہوں، بلکہ ہماری نمائندگی کرنے کی کوشش کر رہے ہوں؛ سب سے زیادہ ضروری ہے۔ ایسے منافقوں سے نجات حاصل کیے بغیر کوئی بھی جنگ جیتنا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن اور محال سا ہے۔ جب تک ہم اپنے داخلی دشمنوں اور اپنی صفوں میں موجود منافقوں سے پاک نہیں ہوں گے؛ کسی خارجی دشمن سے جنگ جیت نہیں سکتے۔ اقوام عالم کی پوری تاریخ اس بات پر شاہد ہے اور یہ سنت اللہ کی وہ قسم ہے جو بدلتی نہیں ہے۔ آپ تصور کریں اگر ہمارے قیادت کی ڈور ہی کسی ایسے شخص کے ہاتھ میں چلا جائے جو ہمارا ایسا دشمن ہو جس کی دشمنی پر پور اسلامی تاریخ شاہد ہے تو ہمارا کیا حشر ہوگا؟ وہی نا جو ارض مبارک فلسطین کا ہو رہا ہے۔ وہ فلسطین جو اخوانیوں اور رافضیوں کے خبیثانہ سیاست کا شکار ہوکر کراہ رہی ہے۔
چلیں فرض کرلیں کہ حماس فلسطین کے لیے مخلص ہے۔ ایران کی مجوسی حکومت سے ان کا تعلق فلسطین کی خیرخواہی پر مبنی ہے۔ وہ رافضی جو دیگر ممالک میں فلسطینیوں سمیت دیگر مسلمانوں کو اس بہیمانہ انداز میں قتل کر رہے ہیں کہ یہودی بھی شرما جائے؛ فرض کرلیتے ہیں کہ ان سے حماس کا تعلق محض فلسطین کی بھلائی کے لیے ہے۔ تو ایک سیدھا سا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس مزعومہ مبنی بر خیرخواہی تعلق کا اب تک نتیجہ کیا نکلا ہے؟ فلسطین اور اہل فلسطین کو حماس سے کیا فائدہ پہنچا ہے؟ حماس نے فلسطین کو کیا دیا ہے اور بدلے میں کیا کیا حاصل کیا ہے؟
اگر ہم بہت گہرائی میں نہیں جاسکتے تو جس طرح ہم اپنے کاروبار اور اپنی اجتماعی زندگی کے دیگر امور میں نفع نقصان کا سیدھا سیدھا حساب کرتے ہیں، کم از کم ویسا ہی کرلیں اور حماس کے وجود سے لے کر اب تک ایک سرسری نظر ڈال کر اندازہ لگائیں کہ فلسطین اور اہل فلسطین کو کون سی نعمت اس کے وجود سے اب تک حاصل ہوئی ہے؟ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں اور جذبات سے اوپر اٹھ کر غور کریں کہ ان فلسطینی قیادتوں سے حقیقی معنوں میں اب تک فلسطین اور اہل فلسطین نے کیا حاصل کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اس رافضی اور اخوانی گٹھ جوڑ نے بجز خسارے کے فلسطین کو کچھ نہیں دیا ہے اور اگر کچھ دیا بھی ہے تو اس کے بدلے میں فلسطینیوں کے دین وایمان اور جان ومال سب کا ایسا سودا ہوا ہے کہ فلسطینی بہت بڑے خسارے میں چلے گئے ہیں۔
وہ مبارک سرزمین جو موحد اعظم ابراہیم علیہ السلام کے نقش پا کی وارث ہے وہاں رافضیت کے نجس قدم پڑنے کے بعد رافضیت پھیلائی جارہی ہے۔ فلسطینی بچوں کو رافضی نصاب مہیا کرایا جا رہا ہے۔ ان کے عقائد ونظریات کو ہائی جیک کیا جا رہا ہے۔
حماس کے ذریعہ جہاد کے نام پر جو کھیل وہاں کھیلا گیا ہے اس سے سرزمین فلسطین صرف لٹی ہے۔ برباد ہوئی ہے۔ اہل فلسطین نے اپنی جان، اپنا مال، اپنی عزت وآبرو اور اپنی زمین جائداد سب گنوائی ہے۔ اس کے برعکس فلسطینی قیادتوں نے صرف اپنی دنیا بنائی۔ عربوں کے صدقات وخیرات کو بھرپور انداز میں لوٹا اور اسے رافضیوں کے حسب منشا استعمال کیا۔ ایران اور قطر جیسے ممالک میں تجارتی مراکز کھولے۔ ان کی اولادیں مختلف ممالک میں پورے عیش وآرام کے ساتھ موج کرتی رہیں اور یہ ان کی شہادت کا ڈرامہ رچاتے رہے۔ ایک ایک فرد کو چار چار بار شہید کیا گیا۔ جذباتی فلمیں بنائی گئیں اور سارے عالم کو ٹھگا گیا۔ بظاہر اس پر حیرانی ہوتی ہے۔ تعجب ہوتا ہے۔ مگر حقیقت میں یہ تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔ جسے اخوانیوں کا مزاج اور رافضیوں کی سرشت پتہ ہے وہ اس پر کبھی حیران نہیں ہوگا۔ بھلا ایک رافضی کسی مسلمان کی وہ بھی کسی یہودی کے خلاف وہ بھی جہاد کے میدان میں مدد کر سکتا ہے؟ سورج مغرب سے نکل جائے گا مگر یہ ممکن نہیں ہوگا۔
پرانی باتیں جانے دیں۔ آج فلسطین کی جو حالت زار ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ غزہ کو کھنڈر بنانے میں کس کس کا کردار ہے؟ حماس کے نفاق نے فلسطین اور اہل فلسطین کی جھولی میں کیا ڈالا ہے؟
بہت آسان ہے یہ کہہ دینا کہ ہمارا ازلی دشمن اسرائیل ایسا کر رہا ہے۔ جنگوں کا تجزیہ اتنا آسان نہیں ہوتا کہ رٹی رٹائی مسلم اور زبان زد بات کہہ کر آپ آگے نکل جائیں۔ سارے اسباب و علل پر غور کرنا پڑتا ہے۔ اسباب کے ساتھ ساتھ نتائج کا باریک بینی سے جائزہ لینا پڑتا ہے۔ دشمن سے پہلے اپنی صفوں پر نظر ڈالنی پڑتی ہے۔ ما لہ و ما علیہ کا جذباتیت سے اوپر اٹھ کر نہایت سنجیدگی سے ریسرچ کرنا پڑتا ہے؛ تب حقیقی یا حقیقت سے قریب نتیجہ نکلتا ہے۔ آپ سنجیدگی سے، ذاتی میلان سے بلند رہ کر، ہوائے نفس کی قید سے آزاد ہوکر، ان امور پر غور کرلیں؛ بہت حد تک معاملات کی تہہ تک پہنچ جائیں گے۔آپ کو اچھی طرح اندازہ ہوجائے گا کہ فلسطینیوں کو اس حالت تک کس نے پہنچایا ہے اور یہودیوں کی کوکھ سے نکلے ہوئے اسلام کے ازلی دشمن رافضیوں کی غلامی کرنے والے تمام عناصر فلسطین اور اہل فلسطین کے کتنے مخلص ہیں؟
مسئلہ صرف یہیں تک محدود نہیں ہے کہ کیا دیا اور کیا لیا ہے؟ سوال کا سرا وہاں تک پہنچتا ہے کہ فلسطین کو کھلونا کس نے بنایا ہے؟ اس کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کس نے کیا ہے؟ حماسی قیادتوں نے رافضیوں کے اشاروں پر، یہودیوں کی خواہشات کے بموجب کتنی بار فسلطین کے قضیہ کو خراب کیا ہے؟ کتنی بار فلسطین کے حل کے لیے کی جانے والی سنجیدہ کوششوں کو اسلام دشمنوں کے کہنے پر ناکام کیا ہے؟ کتنی بار مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے کی جانے والی سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کے منصوبوں پر پانی پھیرا ہے؟ یہ سہولت کاروں اور فرضی دانشوروں کی ہوا ہوائی باتیں نہیں ہیں۔ وہ چشم کشا اور ہوش ربا حقائق ہیں جن کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ بس جاننے کے لیے حقیقت پسند بننا پڑتا ہے۔ ہوائے نفس کی قبا چاک کرنی پڑتی ہے۔ یہ ایسے حقائق ہیں جو صرف نفاق کے ہر لباس کو شق کرکے ہر منافق کو بے لباس کردیتے ہیں بلکہ یہ بھی ثابت کر دیتے ہیں کہ رافضیوں کا آلہ کار کبھی اسلام اور مسلمانوں کا حقیقی خیر خواہ نہیں ہوسکتا اور مجوسیوں کے اشاروں پر ناچنے والا کبھی فسلطین اور اہل فلسطین کا مخلص نہیں بن سکتا۔
حالیہ جنگ کے بعد اہل غزہ کی زار زار حالت اور ان کا تار تار دامن ہم سے کیا کیا کہتا ہے؟ سوشل میڈیا لے لے کر عالمی ٹی وی چینلوں تک پھیلی ہوئی ان کے سیکڑوں ویڈیو ہم سے کیا شکوہ کرتے ہیں؟ کیا آپ نے روتی ہوئی عورتوں کی بد دعائیں نہیں سنیں؟ آہ و بکا کرتے ہوئے مردوں کی دلخراش آوازیں آپ کی سماعت سے نہیں ٹکرائیں؟ بوڑھوں کی آہیں اور بزرگوں کی کراہیں آپ کو نہیں سنائی دیں؟ اگر نہیں تو آپ مردہ ہیں کہ فلسطینیوں کی آہیں آپ کے کانوں تک نہیں پہنچتیں مگر رافضیت زدہ منافقوں کے حشر پر آپ کا ایمان جاگ اٹھتا ہے۔ اگر ہاں تو اس میں آپ نے کیا سنا؟ ہم نے تو اسرائیل سے زیادہ حماس اور یہودیوں سے زیادہ اخوانیوں کو بدعائیں دیتے، ان پر لعنت بھیجتے اور جبار ذو الجلال سے ان کے جلد محاسبہ کی دہائی دیتے سنا ہے۔ ان آوازوں میں وہ آہ اور کراہ ہے کہ انسان دہل جائے۔ وہ درد اور سوز ہے کہ کلیجہ پھٹ جائے۔ وہ آہ و فغاں ہے کہ آسمان ہل جائے۔ ان لٹے پٹے اور کٹے پھٹے مظلوموں کی آہیں، کراہیں اور فریادیں جب عرش سے ٹکراتی ہوں گی تو کیا کیفیت ہوتی ہوگی اور وہ جبار وقہار جس نے برزبان رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم اعلان کر رکھا ہے:
(یا عِبادِی إنّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ علَى نَفْسِی، وَجَعَلْتُہ بَیْنَکُم حَرَامًا، فَلا تَظالَمُوا) اپنے کمزور، ناتواں اور معصوم بندوں پر یہ ظلم دیکھ کر اس کے غیظ وغضب کا کیا عالم ہوتا ہوگا۔ ایسے میں اگر یہ اخوانی اور رافضی قیادتیں ایک کے بعد ایک زمیں بوس ہو رہی ہیں تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے۔ (المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ)
غزہ اور اہل غزہ کے سوداگروں میں حقیقی فرق کو سمجھنا ہے تو بر صغیر کے اخوانیوں، تحریکیوں، سہولت کاروں اور دانشوروں کی موشگافیاں درکنار کرکے، خود اہل فلسطین کی زبانی سمجھنے کی کوشش کریں۔ فلسطینی عورتوں، بچوں اور بزرگوں کی جگر کو چیر دینے والی صدائیں سنیں اور اس کی روشنی میں اس فرق کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ لاشوں کے ان سوداگروں اور اپنے مبارک وطن کے خائنوں کی درست حقیقت ان سے بہتر آپ کو دوسرا کوئی اور نہیں بتا سکتا۔ خاص طور سے سوشل میڈیا پر گمراہی پھیلاتا اور غنڈہ گردی کرتا برصغیر کا اخوانی، تحریکی، سہولت کار یا دانش ور مافیا تو بالکل نہیں۔
سب سے پہلے ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا واقعی ہمیں فلسطین سے سچی محبت ہے؟ ہم کو اہل فلسطین سے حقیقی لگاؤ ہے؟ یا پھر ہمیں بس ان سوداگروں سے ایک جذباتی لگاؤ اور اندھی عقیدت ہے جنھوں نے اپنے وطن کے ساتھ فیصلہ کن مراحل میں غداری اور خیانت کی ہے؟ وہ جھوٹی محبت جو مکار صیہونی میڈیا کے زیر اثر اور کربلائی، اخوانی نیز تحریکی پروپیگنڈہ کا نتیجہ ہے۔ وہ جھوٹا جذبہ جو بچھڑے کی اس محبت کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے جو اپنی صفوں میں موجود دشمنوں اور منافقوں کو بڑی چالاکی سے چھپانا چاہتا ہے۔
یہ چالاکی رافضیوں نے اپنے یہودی ملاؤں سے لی ہے پھر اخوانیوں اور تحریکیوں نے اپنے رافضی آقاؤوں سے اسے اچک لیا ہے اور اب اخوانی و تحریکی کچروں کے ڈبوں سے چن چن کر بر صغیر کا دانشور اور سہولت کار طبقہ اسے پرموٹ کر رہا ہے۔
عالم عرب کے رافضی اور اخوانی جیسے ہی دیکھتے ہیں کہ ان کی منافقتوں اور مکاریوں کا دبیز پردہ کوئی چاک کر رہا ہے۔ رات کے اندھیرے میں طے پانے والے ان کی سوداگری اور تجارت کے ڈیل کو کوئی عوام کے سامنے لا رہا ہے؛ فورا اسے صهاينة العرب کا لقب دیتے ہیں۔ یہودیوں کا ایجنٹ اور صلیبیوں کا دلال کہہ کر اپنی منافقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خست وخباثت کا عالم یہ ہے کہ ساری منافقت اور سوداگری کے باوجود خود کو مخلص اور مخلصین کو منافق باور کرانے کے لیے سفالت کا ہر مرحلہ بآسانی طے کرجاتے ہیں۔
منحرفین اور باطل افکار سے متاثر ہونے والے افراد، دشمنوں کی فکر دانستہ یا نادانستہ کیسے قبول کرتے ہیں اس کی ایک مثال اسی تناظر میں برصغیر کے اخوانیوں اور تحریکیوں کے ساتھ ساتھ، یہاں کے دانش وروں اور سہولت کاروں میں دیکھیے کہ یہ بھی جیسے کوئی رافضیوں کی منافقت اور اخوانیوں کی خیانت پر بات کرتا ہے اسے صیہونیوں کا دوست، ان کا ایجنٹ اور ان کا حمایتی کہنے لگتے ہیں۔
در اصل مکروفریب کا یہ وہی کھیل ہے جس کی بنیاد یہودیوں اور صلیبیوں نے رکھی ہے اور اب وہی کھیل رافضیوں کے ساتھ ساتھ اخوانی، تحریکی اور ان کے بعد دانستہ یا نادانستہ سلفیوں میں موجود دانشور اور سہولت کار طبقہ کھیل رہا ہے۔ مقصد ہر جگہ ایک ہی رہتا ہے: کھلے دشمن کو ڈھال بنا کر چھپے دشمنوں پر پردہ ڈالنا۔ اپنے ہوائے نفس کو سرٹیفائی کرنے کے لیے کسی متفق علیہ چیز کا سہارا لینا۔
یاد رکھیں! فکر میں یہ مشابہت ایسے نہیں آتی ہے۔ اس کے لیے ہوائے نفس کا اسیر اور جذباتیت کا غلام بننا پڑتا ہے تب جاکر ایک انسان (يُضاھِھُون قولَ الذين كَفَرُوا) کا مصداق بنتا ہے۔
عربوں نے فلسطین کے لیے حقیقی قربانی دی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے صرف قربانی دی ہے۔ محض کھویا ہے۔ بس گنوایا ہے۔ آج بھی خوشی خوشی قربانی دے رہے ہیں۔ پورے اطمینان سے اپنا خسارہ کر رہے ہیں۔ عطا کر رہے ہیں۔ لٹا رہے ہیں۔ ان بے غرضوں اور بے لوث محبت کرنے والوں کو اللہ کی رضا جوئی کے سوا نہ کسی اور چیز کی خواہش ہے، نہ ہی انھوں نے اس کے بدلے کچھ اور حاصل ہی کیا ہے۔
ہاں ایک چیز انھیں مزید ملی ہے اور خوب ملی ہے۔ وہ ہے بدنامی۔ ایسی بدنامی جو ان کے نام سے جوڑ دی گئی ہے۔ لیکن یہ بدنامی انھیں کسی شریف انسان سے نہیں ملی ہے۔ اس بدنامی کے پیچھے ایک لمبی سازش اور دائمی حقد وحسد ہے۔ یہ بدنامی صلیبیوں، یہودیوں، رافضیوں، اخوانیوں اور تحریکیوں کے دائمی پروپیگنڈہ اور سہولت کاروں نیز دانشوروں کی لگاتار محنت کا نتیجہ ہے۔ البتہ اس میدان میں اِن کی کل حقیقت یہی ہے کہ یہ جس کو گالی دینے لگیں، اس کی بے عزتی کا سامان کرنے لگیں، اسے بدنام کرنے کی منظم کوشش کرنے لگیں؛ آپ فورا چوکنے ہوجائیں اور سمجھ جائیں کہ ان سے گالی کھانے والا کوئی شریف انسان اور خیر کا خوگر ہی ہوگا۔
یہ ایک نفسیاتی مسئلہ بھی ہے جس کی طرف ایک باغیرت اور نباض حماسی شاعر نے بہت ہی خوبصورت انداز میں کچھ اس طرح اشارہ کیا ہے:
أكُلُّ امْرِئٍ ألفَى أَبَاهُ مُقَصِّرًا
مُعادٍ لأهْلِ المَكْرَمَاتِ الْأَوَائِلِ
إِذا ذُكِرَتْ مَسْعَاةُ وَالِدِهِ اضْطَنَی
وَلَا يَضْطَنِي مِنْ شَتْمِ أَهْلِ الْفَضَائِل
یعنی: کیا ہر وہ انسان جس کے آباء واجداد کوئی قابل قدر کارنامہ انجام دینے سے قاصر اور شرف وفضیلت پانے سے عاجز ہیں اس کی یہ عادت اور نفسیاتی مجبوری بن گئی ہے کہ وہ اہل شرف وفضیلت اور اصحاب نبل وکرم سے عداوت ودشمنی کرے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ جب اس کے باپ دادا کے کرتوتوں کو ذکر کیا جاتا ہے تب تو اسے سنتے ہوئے شرم آتی ہے، مگر اسی کم ظرف کو اہل فضل وکرم کو گالی دیتے شرم نہیں آتی۔
اب آپ برصغیر کے ان دشنام طرازوں پر غور کریں جو سعودی عرب سمیت عرب ممالک کو اس طرح کے تمام معاملات میں مورد الزام ٹھہراتے، بدنام کرتے اور دن رات گالیاں دیتے ہیں۔ عربوں کے مقابلے میں انھوں نے اور ان کے باپ دادا نے فلسطین اور اہل فلسطین کے لیے کیا کیا ہے؟ آج بھی ان کے مقابلے میں یہ کیا کر رہے ہیں۔ در اصل شکست خوردہ قوموں کی ایک نفسیات ہوتی ہے۔ یہ اس نفسیات کے بھی مکمل شکار ہیں۔ ایسے لوگ نہ خود کچھ کرسکتے ہیں نہ ہی انھیں کسی کی خوبیاں راس آتی ہیں۔ خاص طور سے ایسے لوگوں کی جن سے انھیں نفرت ہو یا جن کے لیے وہ بوجوہ ناپسندیدگی کا جذبہ رکھتے ہوں۔ ایسے نفسیاتی مریض کوڑے کے ڈھیر ہوتے ہیں جن سے صرف بدبو پھیلتی ہے۔
ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں! فضل و شرف سے محروم، شقاوت ومحرومی کے شکار، سلبیت و نحوست میں لت پت اور احساس کمتری کے مارے افراد ہمیشہ اہل فضل اور اصحاب شرف کے دشمن ہوتے ہیں۔ دینی اور دنیاوی نعمتوں سے سرفراز لوگ انھیں ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ یہ ہمیشہ ان سے بغض و حسد اور ان کے تئیں نفرت وکدورت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ایسی نفرت و ناپسندیدگی اور ایسا بغض و حسد جس کا سبب شرف وفضل سے دوری اور نعمتوں سے محرومی ہوتی ہے؛ اس میں اگر عقیدہ و منہج میں اختلاف اور فکر و نظر میں تباین کا تڑکا لگ جائے تو بالکل وہی صورت حال بنتی ہے جو اس وقت برصغیر میں بنی ہوئی ہے۔ یہ کہیں نہ کہیں عقیدہ و منہج میں پستی کے ساتھ ساتھ شرف و فضیلت اور عزت و رفاہیت میں بھی محرومی کا نتیجہ ہے۔ یہ نامراد عربوں کو بدو کہہ کر وقتی طور سے اپنے اس احساس برتری کو سینک تو لیتے ہیں جو درحقیقت احساس کمتری کے متعفن خمیر سے اٹھی ہے۔ مگر اس سے حقیقت کب بدلتی ہے؟ حقیقت تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل وکرم سے عربوں کو اس طرح نوازا ہے کہ ایک عربی جس طرح کے حمام میں بیٹھ کر قضاء حاجت کرتا ہے اس طرح کے کمروں میں انھیں جلدی سونے کی توفیق حاصل نہیں ہوتی۔ پھر بھی کبر وغرور اور جہالت و سفالت کا عالم یہ ہے کہ ہمیشہ چاند پر تھوکنے کے چکر میں اپنے ہی منہ پر تھوکتے رہتے ہیں۔ واقعی یہودی مکرو فریب اور رافضی چالوں نے انھیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔
عربوں کو اپنی اس مبارک سر زمین سے سچی محبت اور حقیقی لگاؤ ہے۔ وہ محبت جو ہر اس مخلص محب وطن کے جسم میں خون بن کر دوڑتی ہے جسے اپنی زمین کی خاک کفن سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ جس کے بدلے اسے نہ مال و متاع کی خواہش ہوتی ہے نہ کسی نام و نمود کی۔ اس کی حفاظت کے لیے وہ ہر خطرہ مول لیتا ہے۔ سارے خطرات سے کھیلتا ہے۔ اپنا مال ومتاع، اپنی عزت و آبرو سب کچھ داؤں پر لگا دیتا ہے اور بوقت ضرورت اللہ کی راہ میں خوشی خوشی اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اس وطن کی مٹی میں اپنے خون اور گوشت سمیت مل جاتا ہے۔ عرب کچھ اسی طرح کا جگر رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں خوف نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ توحید پرست ہیں۔ صرف اللہ سے ڈرتے ہیں۔
اسرائیل کے وجود سے لے کر اب تک کی تمام جنگیں باقاعدہ انھوں نے ہی لڑی ہیں۔ اپنا بہت کچھ قربان کیا اور گنوایا ہے۔ اپنی جان، مال اور اپنی زمین گنوائی ہے۔ یہ نہ ہوتے تو بقول شخصے شاید فلسطین کا قضیہ کب کا ختم ہوچکا ہوتا اور ہم کرہ ارض پر اس کا نشان تلاش رہے ہوتے۔ ہر محاذ پر یہ ڈٹے رہے۔ ہر موقف پر کھڑے رہے۔ ایک طرف ساری دنیا تھی۔ دنیا کی عظیم قوتیں تھیں۔ ایک طرف متوسط الحال عرب تھے۔ مگر حوصلہ نہیں پست ہوا۔ مارے گئے۔ لوٹے گئے۔ ان کے ساتھ بار بار سوداگری ہوئی۔ ٹھگے گئے۔ بلیک میل ہوئے۔ مگر ہمت نہیں ہارے۔ اللہ تعالى کی ذات سے پوری امید ہے کہ جس طرح ان عربوں نے اس قضیہ کے ساتھ اب تک اخلاص وانصاف برتا ہے، آج نہیں تو کل -ان شاء اللہ- اس کو حسن انجام تک بھی پہنچائیں گے اور اس شرف سے بھی وہی شرف یاب ہوں گے۔
۱۹۷۳ کی وہ ایک اکلوتی جنگ جو اسرائیل سے لڑی اور جیتی گئی وہ بھی عربوں نے ہی لڑی۔ سعودی عرب نے اس کی خصوصی پلاننگ کی۔ شاہ فیصل -رحمہ اللہ- جیسا مدبر اور سعودی فرمانروا اس کا تھنک ٹینک تھا۔ مصر کی فوجی قیادت میں اسرائیل کو ایسا سبق سکھایا گیا جو یہودیوں کے حافظے سے مٹائے نہیں مٹے گا۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ اگر یہ جنگ نہ ہوتی اور اس میں اللہ کے فضل وکرم سے کامیابی نہ ملتی تو اسرائیل اب تک کہاں تک پہنچ چکا ہوتا۔ اس تاریخی موقع پر مصر کے صدر انور سادات -رحمہ اللہ- نے شاہ فیصل – رحمہ اللہ- کے اس ٹھوس اقدام اور غیر متزلزل موقف کی جس نے امریکہ اور اسرائیل دونوں کو گھٹنوں پر لادیا تھا؛ تعریف کرتے ہوئے کہا تھا: (أَنْجَزَ حُرٌّ مَا وَعَدَ) یعنی: ایک مرد حر نے جو وعدہ کیا تھا اسے پوری طرح نبھایا۔ بعد میں اس جنگ کی قیمت سعودی عرب نے شاہ فیصل -رحمہ اللہ- جیسے عظیم قائد اور مدبر حکمراں کے جان کی صورت میں ادا کی۔ دنیا کا وہ کون سا ملک ہے جس نے فلسطین کی خاطر اپنا فرمانروا کھویا ہو؟ وہ بھی شاہ فیصل جیسا عظیم حکمراں اور مدبر فرمانروا؟
یہ وہ چند نکات ہیں جو اس مسئلہ کو دو اور دو چار کی طرح واضح کردیتے ہیں کہ فلسطین کا حقیقی مخلص کون ہے۔ فلسطینیوں کا سچا ہمدرد کون ہے؟ ان کے دشمن کون کون ہیں؟ کون ان کے ساتھ اپنے موقف میں سچا ہے اور کون ان کے ساتھ مسلسل نفاق کا کھیل کھیل رہا ہے؟ یہ کوئی ایسی پہیلی نہیں ہے جس کو سمجھنے میں بہت پریشانی ہو۔ مگر بات وہی ہے جو بڑے سلیقہ سے کہہ دی ہے: ”جاننا ہو تو حقائق تک رسائی مشکل نہیں ہے مگر نقطۂ نظر کے مطابق ہی منظر دکھائی دیتا ہے۔ منظر جیسا ہے ویسا ہی دکھائی دے اس کے لیے اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ جیسا تہران دکھانا چاہتا ہے اس کے لیے صرف سنی اور جذباتی ہونا کافی ہے۔ بصیرت کی ضرورت ہے نہ بصارت کی، آنکھیں کھلی ہوں گی تو بھی منظر پر چشمے کا رنگ ریفلیکٹ ہوگا“۔ اللّهُمَّ أَرِنَا الحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَهُ، وأَرِنَا البَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَهُ!
ایک بات ہمیں اچھی طرح ذہن نشین کرنى ہوگی کہ رافضی اسلام اور مسلمانوں کے وجود کے دشمن ہیں۔ یہ کبھی اسلام کے مخلص نہیں ہو سکتے۔ اسلام کی پوری تاریخ اس پر شاہد ہے کہ اسلام اور مسلمانوں سے ان کی عداوت یہود ونصارى سے زیادہ شدید اورخطرناک ہے۔ اسی لیے ان کے تئیں سلف صالحین کا موقف ہمیشہ دو ٹوک اور بے لچک رہا ہے۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (ت: 728ھ) ان روافض کی بڑی باریک خبر رکھتے تھے۔ آپ نے ان کے مکرو فریب کو چاک کرنے کے لیے نہ صرف “منھاج السنۃ النبویۃ”نامی ایک بے مثال کتاب لکھی بلکہ ایک سے زائد بار اس بات کی طرف واضح اشارہ کیا کہ بعض وجوہات کی بنا پر روافض اور بعض دیگر باطنی فرقے یہود ونصارى سے زیادہ خطرناک ہیں۔
آپ نے فرمایا:”فقد عُرِف مِن مُوالاتهم لليهودِ والنّصارى والمشركين، ومعاونتِهم على قتالِ المسلمينَ ما يَعرِفُه الخاصُّ والعامُّ، حتّى قِيل: إنّه ما اقتتَل يهودِيٌّ ومسلمٌ، ولا نصرانيٌّ ومسلمٌ، ولا مشرِكٌ ومسلمٌ، إلا كانَ الرَّافِضيُّ مع اليهوديِّ والنصرانيِّ والمُشركِ”۔(منهاج السنة:3/452) یعنی: ان رافضیوں کی یہود ونصارى اور مشرکین سے دوستی اور مسلمانوں کے خلاف ان کا تعاون عوام وخواص سب کے یہاں اس قدر معروف ہے کہ کہا جاتا ہے: اگر ایک مسلمان کی کسی یہودی یا نصرانی یا مشرک سے لڑائی ہو جائے تو رافضی ہمیشہ یہودی، نصرانی اور مشرک کے ساتھ ہوگا۔
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان رافضیوں کی کارستانیوں اور مسلسل سازشوں کا آپ نے یہ کہہ کر خلاصہ کردیا کہ : “والرَّافِضَةُ لَيْسَ لهُم سَعْيٌ إلّا فِي هَدْمِ الإسلامِ، ونَقْضِ عُراهُ، وإفسادِ قَواعِدِه”. (منهاج السنة النبوية:7/416) یعنی:روافض ہمیشہ اسلام کو ڈھانے، اس کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور اس کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔
اسی لیے آپ نے روافض کو مسلمانوں کے حساس مقامات پہ متعین کرنے کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: “وأمّا استخدامُ مثلِ ھؤلاءِ -یعنی: الرَّافِضۃَ- فی ثُغُورِ المُسلمینَ أو حُصُونِھم أو جُندِھم فإنَّہ مِن الکًبائِرِ. وھو بِمَنزِلۃِ مَنْ یَستَخْدِمُ الذِّئابَ لِرَعْیِ الغَنَمِ”۔(مجموع الفتاوى:35/155) یعنی: مسلمانوں کے سرحدوں اور ان کے قلعوں کی حفاظت کی خاطر، اسی طرح مسلمانوں کی فوجوں میں ان رافضیوں کا استعمال کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی بکریوں کو چرانے کے لیے بھیڑیوں کا استعمال کرے۔
یہی وجوہات ہیں کہ آپ نے نہ صرف روافض کو ہمیشہ کچلنے کی تلقین کی ہے بلکہ اسے عظیم عبادت قرار دیا ہے، فرماتے ہیں: “سَعْيُ المُسلِمینَ في قَھْرِ الرَّوافِضِ مِنْ أعظَمِ الطَّاعاتِ و العِبادَاتِ”(جامعُ المَسائل:7/437) یعنی: مسلمانوں کا رافضیوں کو کچلنے کی کوشش کرنا عظیم ترین عبادت اور اللہ تعالى کی بہترین فرمانبرداری ہے۔
روافض کی طرف سے ہونے والے شدید نقصانات اور اس امت کو پہنچنے والے سنگین ضرر کی وجہ سے مشہور حنبلی فقیہ ابو السعادات بہوتی (ت: 1051ھ) نے ان سے کسی قسم کا تعاون لینا حرام قرار دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: “ویُحْرَم أن یَستعینَ مُسلِمٌ بأھلِ الأھواءِ کالرَّافِضۃِ، فِی شَیءٍ مِنْ أُمورِ المُسلمینَ: مِنْ غَزوٍ، وعَمالۃٍ، وکِتابۃٍ، وغَیرِ ذلک؛ لأنَّھم أعْظَمُ ضَرَرًا؛ لِکونِھم دُعاۃً، بخلافِ الیَھُودِ والنَّصارَى”(کشاف القناع:7/86) یعنی: کسی بھی مسلمان پر یہ چیز حرام ہے کہ وہ روافض جیسے ہوى پرستوں سے مسلمانوں کے کسی معاملے میں مدد لے، جیسے جنگ، خدمت گزارى، منشی گیری وغیرہ۔ اس لیے کہ ان سے ہونے والا نقصان زیادہ بڑا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہود ونصارى کے برعکس ان کا شمار بظاہر مسلمانوں میں ہوتا ہے اور وہ اپنى بد عقیدگی کی طرف دعوت دیتے ہیں جس کی وجہ سے گمراہی کا خدشہ یہود ونصارى کی بنسبت ان سے زیادہ ہے۔
بعض اہل علم نے تو یہاں تک کہہ دیا: “الرَّافضةُ هُم شَرُّ الطوائفِ و أشدُّ خَطَرا على الإسلامِ و المسلمينَ مِنَ اليَهودِ و النَّصارى بدَليلِ النَّقْلِ و العَقْلِ و التّاريخِ والواقِعِ. فاحْذَرْهم وحَذِّرْ مِنْهم” یعنی: روافض سب سے بدترین فرقہ ہیں۔ وہ مسلمانوں کے لیے یہود ونصارى سے زیادہ خطرناک ہیں۔ شرعی دلائل، عقل سلیم، تاریخ اور حقیقت سب اس پرگواہ ہیں۔ چنانچہ ان سے چوکنا رہیں اور لوگوں کو بھی ان کے خطرات سے ڈرائیں۔
رافضی کبھی اسلام کا مخلص نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اسلام کو اس کے ذریعہ عزت مل سکتی ہے۔ اللہ تعالى صحابہ کرام -رضی اللہ عنہم- کو گالیاں دینے اور ان کی تکفیر کرنے والوں کو کبھی اس سے شرف یاب نہیں کرے گا۔
1979م میں جب استعماری قوتوں کے ذریعےخمینی انقلاب لایا گیا اور مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے ان منافقوں نے اسلام اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا نعرہ لگایا۔ فلسطین کو آزاد کرانے کی بات کہی۔ حزبیوں تحریکیوں اور اخوانیوں نے اس کی بھرپور تائید کی۔ اسی وقت ابن باز رحمہ اللہ (ت: 1999م)نے صراحت کے ساتھ کہہ دیا تھا: “لا یُعِزُّ اللہُ دینَہ برافِضِیٍّ”۔ یعنی: اللہ تعالى اپنے دین کو کسی رافضی کے ذریعہ طاقت وقوت اور شرف و عزت نہیں عطا کرے گا۔
اسی لیے اگر کوئی شخص رافضیوں سے خیر کی توقع رکھے، ان سے اتحاد واتفاق کی بات کرے ۔ انھیں مسلمانوں کا امین اور مخلص سمجھے تو آپ یقین کرلیں کہ یا تو اس کا ایمان کمزور ہے۔ اس کے دل ودماغ میں رافضیت سرایت کر چکی ہے۔ اخوانیت تحریکیت اور مودودیت نے اس کے عقیدہ ومنہج اور فکر وشعور کو کھوکھلا کردیا ہے۔ یا پھر وہ اسلام کی تاریخ،اس کے ماضی و حاضر دونوں سے بے خبر، بصارت اور بصیرت سب سے محروم ہے۔ عقیدہ توحید کے اہم ستون ولاء اور براء کی بنیاد اور تقاضوں سے ناواقف ہے۔ وہ اہم ترین عقیدہ جو دوستی اور دشمنی کا دینی پیمانہ ہے اس کی حقیقت وماہیت سے نابلد ہے۔
ایران اور اسرائیل دونوں اسلام دشمن ہیں۔ ان کی اسلام دشمنی ان کے اور اسلام کے وجود سے عبارت ہے۔ دشمنی ناپنے کے معاییر ومقاییس اور پیمانے ہوتے ہیں۔ عموماً بغض وحسد،نفرت وکدورت اور بدلہ وانتقام کے پیمانہ سے دشمن اور اس کی دشمنی کو ناپا جاتا ہے۔ دشمن سے ہونے والے خسارے سے اس کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ جب ہم اس زاویے سے غور کرتے ہیں تب ہمیں یہ مسئلہ نہ صرف دو اور دو چار کی طرح سمجھ میں آجاتا ہے بلکہ سلف صالحین کے علم، ان کی حکمت وبصیرت اور ان کی فراست پر یقین مزید پختہ ہو جاتا ہے۔ دشمن اگر دائمی ہو تو تاریخ کے اوراق پلٹے جاتے ہیں اور نفع نقصان کا حساب کیا جاتا ہے۔ تاریخ اسلام پر ایک سرسری نظر ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ یہودیوں سے اسلام کو جو نقصان پہنچا ہے وہ روافض سے پہنچنے والے نقصانات کا عشر عشیربھی نہیں ہے۔
ایران اور اسرائیل دونوں کے اپنے اپنے عزائم ہیں۔ جہاں اسرائیل گریٹر اسرائیل کے لیے کوشاں ہے وہیں ایران قدیم مجوسی کسروی سلطنت کے احیا پر پورے پلان کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ دونوں کی دیرینہ خواہش کی تکمیل میں عرب آڑے آتے ہیں جو اسلام کے اصل نمائندے اور انبیاء نیز وحی کا گڑھ ہیں۔ بنا ان کو ختم کیے اور ان کی زمینوں پر قبضہ کیے ایران اور اسرائیل دونوں اپنی اپنی دیرینہ خواہشات پوری نہیں کر سکتے۔ عربوں سے ان کی دشمنی، بغض، نفرت، حسد اور ان سے دائمی جنگ کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ انھی خواہشات کی تکمیل کے لیے میڈیا کو اس طرح سیٹ کیا گیا ہے کہ عربوں کو عالم اسلام میں ہلکا کیا جاسکے۔ ان کا اعتبار ختم ہو۔ ان کی دینی حیثیت پر ہی سوالیہ نشان لگ جائے۔ تاکہ ان کا شکار آسان ہوجائے۔
ایران اور اسرائیل کے عزائم یکساں ہیں۔ مفادات مشترک ہیں۔ ازلی دشمن ایک ہے۔ اسی لیے تعلقات بھی مضبوط ترین ہیں۔ ایران اور اسرائیل دوستی ، باہمی تعاون اور تعلقات اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکے ہیں۔ مفادات کی جنگ کسی سے بھی کبھی بھی ممکن ہے۔ خاص طور سے جب ہدف ایک اور غرض یکساں ہو ۔ دونوں مصلحت پرست اپنی خست ورذالت، بد عہدی اور منافقت، چالاکی اور مکاری میں اپنى مثال آپ ہوں۔ ایسی صورت میں دوستی کب دشمنی میں بدل جائے اور پھر دشمنی کب دوستی کی طرف واپس لوٹ آئے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ان دونوں کے یہاں دشمنی کے لاکھ مظاہر نظر آئیں مگر اسلام کے خلاف صف بندی میں دونوں متفق اور حسب ضرورت ومصلحت ایک دوسرے کے حلیف ہیں۔ یہ وہ نقطہ اتفاق ہے جو دونوں کو ایک صفحہ پر جمع رکھتا ہے۔
چونکہ مصالح کی عارضی جنگ اور مفادات کی وقتی لڑائی کا حتمی مقاصد اور دائمی مصالح پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا، بلکہ اکثر جھڑپیں تو محض مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی خاطر باقاعدہ پلان کے تحت پیدا کی جاتی ہیں؛ اس لیے موجودہ حالات اور حالیہ تناظر میں یہ سوال بار بار ذہن میں آتا ہے کہ جب اس رافضی حکومت کے مہرے بری طرح پٹ رہے ہیں، حماس سے حزب اللہ تک کا بری طرح صفایا ہو رہا ہے، ایران کے اشاروں پر اپنے وطن تک کو آگ کے حوالے کر دینے والوں کا حساب کتاب جاری ہے، مجوسی حکومت کی فرمانبرداری میں اپنے ہم وطنوں تک کا سودا کرنے والوں پر قیامت کی گھڑى ہے؛ ایسے حالات میں ایران اپنے ان آلہ کاروں اور دم چھلوں کا بنفس نفیس دفاع کیوں نہیں کر رہا ہے؟ ایک ایک کر کے سارے ضمیر فروش خاک میں ملتے جا رہے ہیں پھر بھی یہ رافضی ملک اب تک ایک مناسب دوری کیوں بنائے ہوئے ہے؟ جنگ کی وہ آگ جس کا ایندھن سلگانے سے لے کر بھڑکانے تک مجوسیوں نے خود فراہم کیا ہے وہ اس کے شعلوں سے اب تک کیوں کر بچے ہوئے ہیں؟ نفاق ہی کا کوئی کھیل اور دکھاوے کا بھی کوئی ناٹک پلے کیوں نہیں کیا جا رہا ہے؟اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ آخر اسی کے اشاروں پر ناچتے ناچتے تو یہ سارے آلہ کار آگ کی اس گہری کھائی تک پہنچے ہیں۔ کیا یہ کوئی سودا ہے جو رات کے اندھیرے میں طے ہوا ہے؟ یا قدرت کا کوئی انتقام ہے جو فلسطینیوں ، شامیوں ، عراقیوں ، لبنانیوں اور یمنیوں کی آہوں کا نتیجہ ہے؟ ایسا انتقام جس سے کوئی ظالم بچ کر نکل نہیں پاتا اور کبھی نہ کبھی اس کی بارى آ ہی جاتی ہے؟ (وَلَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ)۔
ایک بات اور یاد رکھیں! ہر ظالم کا حساب ہوتا ہے۔ بسا اوقات وقت لگتا ہے مگر ظالم اپنے کیفر کردار تک ضرور پہنچتا ہے۔ اللہ تعالى ڈھیل ضرور دیتا ہے مگر جب انتقام لینے پر آتا ہے تو ایسے انداز سے انتقام لیتا ہے کہ ظالم عبرت وموعظت کے ساتھ ساتھ حسرت وندامت کا بھی نمونہ بن جاتا ہے۔ اسے ایسی جگہ سے پکڑتا ہے جو اس کے خواب وخیال میں نہیں ہوتی۔ اسے ایسا گرفتار کرتا ہے کہ وہ اپنی جگہ سے ہل تک نہیں پاتا۔ دو قسم کے لوگ عموماً پہلے دنیا میں سزا پاتے ہیں پھر آخرت کی باری آتی ہے۔ ایک ماں باپ کا نافرمان اور دوسرا لوگوں پر ظلم کرنے والا۔ اسی طرح جو لوگ ظلم وزیادتی پر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، معصیت ونافرمانی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں، ان میں دوستی کی ڈور بھلے ہی مضبوط نظر آئے مگر درحقیقت وہ بہت کمزور ہوتی ہے۔ اللہ تعالى اسے جب چاہتا ہے ایک جھٹکے میں توڑ دیتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ-رحمہ اللہ- نے کسی پر ظلم وزیادتی کا شنیع عمل انجام دینے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے والوں کی ایک نہایت اہم بشری طبیعت اور انسانی نفسیات کی طرف اشارہ کیا ہے: “والنَّاسُ إذا تَعاوَنُوا علَى الإثمِ والعُدْوانِ أبْغَضَ بَعْضُھُم بَعْضًا، وإنْ کانُوا فَعَلُوہُ بِتَرَاضِیْھِم”۔ (مجموع الفتاوى:15/128) یعنی: جب لوگ معصیت اور ظلم وزیادتی کے مبغوض عمل میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں تو آخر میں ہوتا یہ ہے کہ وہ خود ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں، اگرچہ یہ تعاون انھوں نے آپسی رضامندی اور باہمی خوشی ہی سے کیوں نہ کیا ہو۔
فارسی حکومت کا ایک مکروہ چہرہ اس کا استحصالی مائنڈ سیٹ اور مجوسی سلطنت کا ایک خبیث رخ اس کا پراکسی جنگ میں مہارت بھی ہے۔ اپنے اہداف ومقاصد کے حصول کی خاطر “الغَایَۃُ تبُرِّرُ الوَسِیْلَۃَ” کے تحت وہ کسی کی بھی قربانی سے گریز نہیں کرتی۔ قدیم کسروی سلطنت ہی سے یہ اس کی خاص پہچان اور غیر متزلزل طبیعت کا حصہ رہی ہے۔موجودہ صورت حال میں حماس اور حزب اللہ کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اور باقی باج گزاروں کے ساتھ جو کچھ ہونے کا امکان ہے کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اسی فارسی اسٹراٹیجک پالیسی اور مجوسی استحصالی مائنڈ کا ایک پلان شدہ حصہ ہو، جس کے تانے بانے بظاہر دشمن مگر بباطن دوست کے ساتھ خاموشی سے بیٹھ کر کسی شب تاریک میں بُنے گئے ہوں؟
بلا شبہ یہود و روافض دونوں اسلام کے شدید ترین دشمن ہیں۔ اسلام کے تئیں جس قدر نفرت، بغض وعداوت، بے رحمی اور قساوت ان صیہونیوں اور مجوسیت زدہ رافضیوں کے دلوں میں ہے کسی اور کے یہاں اس کا عشر عشیربھی نہیں ہے۔ عرب اسلام کے اصل اور سب سے زیادہ مخلص ہیں۔ اعمال وکردار، خدمات اورقربانی ہر اعتبار سے وہ عالم اسلام میں مجموعی طور پر سب سے اعلى اور ارفع ہیں۔ بلکہ علم وعمل اور خدمات کے اعتبار سے ان کا کسی سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ اسلام کی اصل پہچان انھی سے ہے۔ اسلام جہاں سے شروع ہوا تھا لوٹ کر وہیں پہنچے گا۔ جنھوں نے اسلام کو شروع میں سنبھالا دیا تھا وہی اس کو آخر میں بھی سہارا دیں گے ۔ اللہ تعالى نے یہ شرف ان کے ساتھ اپنی حکمت اور بوجوہ واسباب ان کے استحقاق کی وجہ سے خاص کر رکھا ہے۔ جس دن وہ نہیں رہیں گے اسلام کی شناخت باقی نہیں رہے گی ۔ قرب قیامت وہی اسلام کا احیا اور یہودیوں سے خصوصی جنگ کریں گے۔ اسی لیے دشمنان اسلام کے اصل ہدف وہی ہیں۔
اسلام کے تئیں جو نفرت یہودیوں کے دلوں میں تھی اسے نہایت مکاری اور منافقت سے روافض کے سینوں میں انڈیلا گیا۔ باطنی فرقوں کا سینہ جب لبالب اس نفرت سے بھر گیا تو اسے مختلف طریقوں سے دیگر مسلمانوں میں کاشت کرنے کی کوشش ہوئی۔ صلیبی تو زمانے کے دشمن تھے۔ یہود ونصارى، رافضیوں اورصہیونیوں نے اس کے لیے لمبا پلان بنایا اور میڈیا کا ایک ایسا سیٹ اپ تیار کیا کہ عرب عام مسلمانوں کے یہاں اسلام کے تخلف اور مسلمانوں کی پسماندگی کا سبب بن جائیں۔ لفظ “بدو” کا ایک ایسا استعارہ ایجاد کیا گیا کہ اس کا اطلاق عربوں کے تمام تر تخلف کی تعبیر اور اس پر دلیل بن گیا۔ دل ودماغ کو ایسا مسموم کیا گیا کہ عربوں کا نام سنتے ہی ذہن میں عیاشی کا ایک تصور بننے لگا۔ میڈیا کے مختلف وسائل کو بروئے کار لاکر شعوبیت کو فروغ دیا گیا ۔ بھرپور جدو جہد اور تمام تر مکاری کے ساتھ عربوں سے نفرت کا ایک ماحول بنایا گیا۔ اس پر کروڑوں اور اربوں روپئے مسلسل خرچ کیے گئے۔ یہ کام مکمل پلاننگ اور نہایت توجہ کے ساتھ انجام دیا گیا۔ آج بھی پوری تندہی سے جاری ہے۔
عربوں کے تئیں روافض میں موجود یہ نفرت اخوانیوں، تحریکیوں اور مودودیوں میں منتقل ہوئی پھر مسلمانوں کا عام طبقہ اس کا شکار بننے لگا۔ آج بھی دشمنان اسلام کا یہ مشن پوری کامیابی سے جاری ہے۔ تسلسل کے ساتھ اس نفرت کی ایسی کاشت کی گئی ہے اور کی جا رہی ہے کہ عرب اپنی بے نظیر خدمات نیز اسلام اور مسلمانوں کے تئیں بے مثال محبت اور قربانیوں کے باوجود مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ کے یہاں ہر آزمائش کا ذمہ دار ٹھہرائے جاتے ہیں۔ نفرت کی اس کاشت میں یہود ونصارى ، صلیبیوں اور صہیونیوں کا سب سے زیادہ ساتھ رافضیوں، اخوانیوں، تحریکیوں اور مودودیوں نے دیا ہے۔ شعوبیت کے وہ شعلے جو مجوسیوں کے آتش کدوں میں بھڑک بھڑک کر بجھ چکے تھے۔ جن کی چنگاریاں زمانے کی راکھ میں دب گئی تھیں عصر حاضر میں انھیں کرید کرید کر دوبارہ بھڑکانے میں انھی اخوانیوں، تحریکیوں اور مودودیوں نے یہود یوں اور رافضیوں کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔
جماعت اخوان المسلمین اپنى ابتدا ہی سے مجوسیت نواز اور رافضیوں کی ہم نوا رہی ہے۔ یہی حال برصغیر کے تحریکیوں اور مودودیوں کا رہا ہے۔ چاہے وہ مولانا مودودی ہوں یا حسن بنا اور سید قطب سب کا رافضی قیادتوں اور خمینی انقلاب سے گہرا تعلق رہا ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں، تقریروں اور اپنے اعمال کے ذریعے اپنے متبعین میں رافضیت سے محبت کی بھر پور پرداخت کی۔ ایران کو ایک اسلامی ریاست کے ماڈل کے طور پر پیش کیا۔ احیاء خلافت کے نام پر ثورائیت کی زراعت کی۔ قدیم فارسی شعوبیت کا احیا کیا۔
یہ سب کچھ اس پیمانے پر ہوا کہ سنی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد میں یہ تصور راسخ ہو گیا کہ ایران کی مجوسی حکومت خلافت اسلامیہ کی سچی وارث ہے۔ اسلام دشمن میڈیا نے ایک طرف اس باطل تصور کو خوبصورت سے خوبصورت تربنا کر پیش کیا ، دوسری طرف اسلام کے اصل نمائندوں کا چہرہ اس قدر مسخ کردیا کہ ان کی شبیہ اسلام دشمن بن گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایران کی فارسی حکومت اور مجوسی سلطنت کے مقابل سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک قابل نفرت و لائق مذمت قرار پائے اور سارے تخلف اور ناکامی کا ٹھیکرا ان کے سر پھوڑا جانے لگا۔
آج حالت یہ ہے کہ اگر ایران اور عرب ممالک میں جنگ ہوجائے تو مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ایران کی حمایت کرے گا۔ کربلائی لابی کے ساتھ ساتھ اخوانی، تحریکی اور مودودی لابی اس کا مکمل سپورٹ کرے گی۔ بلکہ مشاہدات و تجربات یہ کہتے ہیں کہ اس رافضی اور اخوانی وتحریکی لابی نے عربوں کے خلاف جس نفرت کی کاشت کی ہے اس کا اثر یہ ہے کہ اگر سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک اسرائیل سے جنگ کریں تو ان اخوانیوں اور تحریکیوں کی ایک معتد بہ تعداد اگرچہ زبان سے نہ کہہ سکے مگر دل ہی دل میں یہ خواہش ضرور رکھے گی کہ عرب ممالک برباد ہو جائیں اور سعودی حکومت کا خاتمہ ہوجائے۔
مشہور معاصر عالم عبد اللہ قصیّر رحمہ اللہ (ت:2024ھ) نے اپنے ایک خطاب میں وصیت کرتے ہوئے کہا تھا: “کلُّ مَنْ سارَ فی فَلَکِھم _أیْ: فی فلکِ الرَّافضۃ_، أو وضَعَ یَدَہ فی أیدِیھِم باسمِ الدَّعوۃِ، وباسمِ الإسلامِ، وباسمِ الجِھاد؛ اتَّهِمُوه في دِينِه ولا تُبالوا، واحذَرُوه، وتَقَرَّبُوا إلى اللهِ بِالحَذَرِ منه. لا تَقُلْ: هذا سُنِّيٌّ. لا! هذا مَجُوسِيٌّ كِسْرَوِيٌّ. هذا عَميلٌ. هذا صَنيعةٌ لهم. هذا فِرقَةٌ من فِرَقِهم التي صَنَعُوها، وزَرَعُوها في قَلبِ العالَمِ الإسلاميِّ. فهذا الكلامُ أستَودِعُكم إيَّاه، وأُشْهِدُ اللهَ عَلَيْكُم أن تَعْقِلُوه، وتَفْهَمُوه، وأنْ تُبَلِّغُوه لِمَن لَمْ يَبْلُغْه، وأنْ تَنْشُرُوه فِي كُلِّ مَكانٍ”۔
یعنی: ہر وہ شخص جو رافضیوں کا دم چھلہ اور ان کا ہم خیا ل ہو، یا دعوت وجہاد کے نام پر ان کا دست نگر بن جائے یا ان سے ہاتھ ملائے ؛ بلا کسی پرواہ کے اسے اس کے دین میں متہم کرو۔ اس سے چوکنا رہو اور اس کے شر سے بچو۔ اس سے دوری اور احتیاط کے ذریعہ اللہ کی قربت اختیار کرو۔ یہ مت کہو کہ یہ سنی ہے۔ بالکل نہیں۔ یہ کسروی مجوسی ہے۔ یہ ایجنٹ ہے۔ یہ ان کا پیدہ کردہ دلال ہے۔یہ ان فرقوں میں سے ایک ہے جنھیں ان رافضیوں نے بنا کر عالم اسلام کے قلب میں پیوست کردیا ہے۔ یہ بات میں بطور امانت تم کو ودیعت کر رہا ہوں اور تم پر اللہ تعالى کو گواہ بنا رہا ہوں کہ اس بات کو گہرائی سے سمجھو۔اسے دوسروں تک پہنچاؤ اور اسے ہر جگہ پھیلاؤ۔
یہی رافضیت کا مکروہ چہرہ ہے۔ یہی اخوانیت کی حقیقی کہانی ہے۔ یہی تحریکیت اور مودودیت کا خلاصہ ہے۔ یہی وہ آئینہ ہے جس میں آپ مشرق وسطى کے حالات کو دیکھنا چاہیں گے تو اس منافقانہ سیاست کا ہر کردار اپنے مکروہ چہرہ اور بدکرداری کے ساتھ بے لباس نظر آئے گا۔ بلا شبہ مشرق وسطى میں جو خونیں کھیل جارى ہے اس میں رافضیت، اخوانیت اور تحریکیت بوجوہ واشکال، دانستہ ونادانستہ، صیہونیت ، صلیبیت اور یہودیت ونصرانیت کی حلیف اور معاون ومدد گارہے۔
نفرت کی جو کاشت کی گئی ہے۔ عالم اسلام کا جو فرضی سیٹ اپ تیار کیا گیا ہے۔ دشمنان اسلام کی قیادت میں اسلامی ممالک کی جو من مانی درجہ بندی نہایت مکاری سے کی گئی ہے؛ جب تک ہمیں یہ ساری چیزیں اچھی طرح سمجھ میں نہیں آئیں گی ہم اسلام دشمن طاقتوں اور اسلام کے مخلصین میں فرق نہیں کر پائیں گے۔
یاد رکھیں! جو قوم اپنے مخلصین اور منافقین میں فرق نہیں کرپاتی ہے، اپنے دوستوں اور دشمنوں میں تمیز کھو دیتی ہے؛ ہلاکت وبربادی اس کا مقدر اور ناکامی ونامرادی اس کی حلیف ہوتی ہے۔
اللہ تعالى سے دعا ہے کہ ہمیں بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت کی نعمت سے بھی اللہ تعالى سرفراز کرے۔حکمت وفراست جیسى عظیم نعمت کا وافر حصہ ہمیں عطا کرے۔ اپنوں اور غیروں میں تمیز کرنے کی توفیق دے۔ دوستوں اور دشمنوں میں فرق کرنے کا سلیقہ عطا فرمائے۔ ہوائے نفس اور اس کے مظاہر سے ہمارى پل پل حفاظت کرے۔ پلک جھپکنے کی مدت بھی ہمیں ہمارے حوالہ نہ کرے۔ کبھی بھی ہمیں بے سہارا نہ چھوڑے۔ ایمان کے نور سے ہمارے دلوں کو ہمیشہ منور اور اس کی حلاوت سے ہمیں سدا لذت آشنا رکھے۔ اسلام اور مسلمانوں کی محبت سے ہمارے قلوب واذہان کو ہمیشہ معمور ومعطر کرتا رہے۔ ہر سوء ومکروہ اور شر سے ہمیں بچائے۔ ہر قسم کے ھم وغم اور حزن والم سے ہمیں نجات دے۔ ہر طرح کی بلا، مصیبت، ابتلا وآزمائش، فتنہ و بیماری اور وبا سے ہمیں محفوظ رکھے۔ دنیا و آخرت دونوں میں سعادت سے بھرپور زندگی عطا فرمائے۔ آمین!
والحَمْدُ للہِ رَبِّ العَالَمِینَ
ماشاء الله، بارك الله فيكم ونفع بكم الإسلام و المسلمين
جزاکم اللہ خیرا شیخنا الفاضل الکریم
انتہائی فاضلانہ تحریر ہے،ایک ایک لفظ حقائق کو نشر کررہا ہے،یہ سلفیوں کے دل کی آواز ہے،یہ اس تنازعے پر قول فیصل ہے جو کئی سالوں سے سلفیوں کے درمیان چھڑا ہوا ہے،آپ کا کے دار اشگاف قلم کو اللہ حق کیلئے اسی طرح رواںدواں رکھے آمین
ماشاءاللہ
دکتور
حقیقت اور تحقیق سے مزین تحریر
اللہ تعالی ہمارے بکڑے خاندانی اہل حدیث قلمکاروں کو صحیح نقطہ نگاہ بنانے اور سلف صالحین کے زریں اقوال کو سمجھنے اور عملی جامہ پہنانے کی توفیق عنایت فرمایے
ہ تحریر صرف پیسہ وصول ہی نہیں اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس میں جو مواد موجود ہے وہ حالات حاضرہ کو سمجھنے کے لیے کئی سو صفحات پڑھنے سے بہتر ہے۔ قضیہ فلسطین اور اس سے جڑے تمام جوانب کو جس خوبصورتی وعلمی انداز میں دکتور نے بیان کیا ہے وہ انھی کا خاصہ ہے، افسوس کہ دشمنوں کے پروپیگنڈوں کے ہم اس قدر شکار ہو چکے ہیں کہ اپنے محسنوں کو دشمن اور خائنوں کو دوست سمجھ بیٹھے ہیں، دکتور نے اس تحریر سے لوگوں کی آنکھیں کھول دی ہیں کہ کون ہمارے سچے دوست ہیں اور… Read more »
ما شاء تبارك الله
أثلجت صدورنا وصدور السلفيين
كلمات جبارة وعظيمة
يعجز اللسان عن ذكر الثناء اللائق بها
حق لهل أن تزيل الغمة عن أعين المريدين للحق
وفقكم الله وسدد خطاكم على الحق