اسی میں فتح کا میری نچوڑ رکھا ہے

سحر محمود شعروسخن

اسی میں فتح کا میری نچوڑ رکھا ہے

جو فیصلہ ہے ترے دل پہ چھوڑ رکھا ہے


یہ میرے حق میں دعائیں ہیں میرے اپنوں کی

انھی نے موجِ حوادث کو موڑ رکھا ہے


خدا کی ذات سے قائم سبھی امیدوں نے

مری حیات کے دھاگے کو جوڑ رکھا ہے


نبھا رہا ہوں اکیلا میں اس سے رسمِ وفا

وہ جس نے وعدہ و پیمان توڑ رکھا ہے


علاج ڈھونڈ رہا ہوں بےروزگاری کا

گلا غریبوں کا اس نے مروڑ رکھا ہے


میں کیسے باز رکھوں خود کو ٹوٹنے سے سحرؔ

کسی کی باتوں نے دل کو جھنجھوڑ رکھا ہے

آپ کے تبصرے

3000