دوست داری کا جس کو پاس نہیں
خیر کی اس سے کوئی آس نہیں
دل لگانا کبھی نہ تم اس سے
جس میں کچھ بھی وفا کی باس نہیں
مجھ کو شکوہ ہو کیوں مقدر سے؟
غم زدہ ہوں مگر اداس نہیں
حق کا اتلاف ہے گنہ، ورنہ
کس کو دولت کی بھوک پیاس نہیں؟
جب سے آیا ہوں اس کے کوچے سے
میں کہاں ہوں کوئی حواس نہیں
غم کا شکوہ ہر ایک لب پر ہے
غم کا چارہ کسی کے پاس نہیں
اس کی قیمت نہیں زمانے میں
جو بھی انسان خود شناس نہیں
وہ ہے شاعر فقط سحر محمود!
فن پہ جس کے رداے یاس نہیں
اس کی قیمت نہیں زمانے میں
جو بھی انسان خود شناس نہیں
بہت شاندار
قابل مبارکباد