ماں باپ کو جس نے بھی نکالا کہیں گھر سے

صبا شعیب شعروسخن

ماں باپ کو جس نے بھی نکالا کہیں گھر سے

پھر یوں ہوا دھتکارا گیا وہ بھی نگر سے


محنت جو تمہاری ہو صلہ تم کو ملے گا

ڈرتے ہو یوں تم کس لیے دشمن کی نظر سے


مل جل کے ہی رہنے میں بڑی خیر ہے لوگو

بے کار ہوا گِر گیا جو پھل بھی شجر سے


ممکن ہے کہ ظالم کے شکنجے سے تُو نکلے

گرویدہ بنالے جو تو ہر اِک کو ہنر سے


خاطر سے اُسے دل میں بسا لے تو صبؔا پھر

ممکن ہی نہیں لوٹ وہ جائے ترے گھر سے

آپ کے تبصرے

3000