طرحی غزل
رنگ خوشیوں کا بھرگیا شاید
وقت مشکل گزر گیا شاید
پہلی سی اب کسک نہیں باقی
حال دل کچھ سنور گیا شاید
وقت درکار ہے پرونے میں
ٹوٹ کر میں بکھر گیا شاید
آپ جب سے بنے نمازی ہیں
حسن یہ اور نکھر گیا شاید
عہد شکنی صفت نہیں اس کی
بے بسی میں مکر گیا شاید
اس کی عزت نہیں بچی دل میں
وہ نظر سے اتر گیا شاید
وقت ماتم جو مسکراہٹ ہے
یعنی اب دل بھی مرگیا شاید
نفرتیں دل میں ہو گئیں پیدا
زہر چھل کام کر گیا شاید
لال کیوں دکھ رہا ہے یہ پانی
آج پھر کوئی مر گیا شاید
اور کوئی نہیں تھا کمرے میں
دیکھ کر خود کو ڈر گیا شاید
جانے کب سے خبر نہیں میری
ایسا لگتا ہے مر گیا شاید
آنکھیں یہ پیار سے ہیں کیوں خالی
آپ کا دل ہی بھر گیا شاید
لازماً بد دعا لگی ہوگی
جیتے جی سو وہ مر گیا شاید
کوئی امید نہ رہی اسعد
”زخمِ امید بھر گیا شاید“
Ghazal itni hai ke
اتنی ہے کہ
کتنی ہے ؟