وفا وعدہ میں اپنا کر رہا ہوں
جگر کو پارہ پارہ کر رہا ہوں
تہی دامان ہو کر اس جہاں میں
میں اپنا ہی خسارہ کر رہا ہوں
میں شاہیں تھا مگر بے وصف ہوں اب
جہاں میں بس گزارا کر رہا ہوں
مرے پر ہیں کٹے سارے کے سارے
پر اڑنے کا ارادہ کر رہا ہوں
بھلا کر جادۂ اسلاف کو ہی
میں اپنے ساتھ دھوکہ کر رہا ہوں
چراغوں کو جلاکر کو بہ کو میں
اندھیروں پر اجارہ کر رہا ہوں
ظہیر اب بادہ و ساغر نہ بھائے
میں محفل سے کنارہ کر رہا ہوں
آپ کے تبصرے