کتنی یادوں کے نشاں ہیں دامنِ نم گیر پر
کب تلک گرتا رہے گا اشک اس تصویر پر
اے شعاعِ مہر وماہِ دہر تجھ کو کیا خبر
کیا گزرتی ہے شبِ وحشت مری تقدیر پر
لکھ رہا ہوں ہجرتوں کی داستانِ نا تمام
میرے ہاتھوں کے لہو شاہدہیں اس تحریر پر
سب کے سب ہیں شہر میں ناآشنائے حالِ دل
کون دیباچہ لکھے گا زخم کی تفسیر پر
کیا سنائیں آج اپنے شہرِ خواییدہ کا حال
خواب پر قدغن لگے ہیں بندشیں تعبیر پر
بے نیازانہ پھرا ہوں اشتہاء و شوق سے
یوں بھی کیا جینا کہ حرف آجائے خود توقیر پر
عشق میں وہ عاجزی سے ہوگئے محوِ غضب
میں نے بھی لب رکھ دیا اس دستِ دامن گیر پر
اب کہاں ہیں وہ نشان ِعظمت عہدِ کہن
اب کہاں روتے ہیں ہم اجداد کی جاگیر پر
تم ہی کیا فائز یہاں اہل ِسخن ہیں زیر ِطعن
بھپتیاں کستے ہیں اب بے ذوق ذوقِ میر پر
آپ کے تبصرے