مشکل سفر میں کوئی مرا ہم سفر نہ تھا

نذیر اظہر کٹیہاری شعروسخن

مشکل سفر میں کوئی مرا ہم سفر نہ تھا

“رہزن تھے بے شمار کوئی راہبر نہ تھا”


واعظ تھا میرے شہر کا وہ کیا ہی باکمال!

صد حیف! اس کی بات میں کوئی اثر نہ تھا


اعمال کا تو اس نے لگایا تھا اک شجر

پر کیا ہوا کہ اس میں کوئی بھی ثمر نہ تھا


عورت وہ بھوکی، راہ میں دنیا سے چل بسی

افسوس! اس کا کوئی وہاں چارہ گر نہ تھا


میں کیسے کرتا اس پہ بھلا یوں ہی اعتبار

وہ میری زندگی میں کبھی معتبر نہ تھا


کب تک بیاں میں کرتا اسے اپنی داستاں

قصہ مرے فراق کا کچھ مختصر نہ تھا


کٹتی رہی حیات فقط کھیل کود میں

انجام آخرت سے کوئی باخبر نہ تھا


اظہر میں اتنی رات کو رُکتا بھلا کہاں

اس شہرِ اجنبی میں مرا کوئی گھر نہ تھا

آپ کے تبصرے

3000