خواب ہی خواب ہے، تعبیر یہاں کچھ بھی نہیں

نسیم اختر عبدالمجید وصی سلفی شعروسخن

خواب ہی خواب ہے، تعبیر یہاں کچھ بھی نہیں

ماسوا متن کے تفسیر یہاں کچھ بھی نہیں


گمرہی کی یہاں ہر سمت وبا پھیلی ہے

دھند ہی دھند ہے، تنویر یہاں کچھ بھی نہیں


شکوۂ ظلمت شب کا تو یہاں چرچا ہے

فکر تخریب ہے تعمیر یہاں کچھ بھی نہیں


مرد ناداں کی طرح ہم تو فقط بیٹھے ہیں

رنج ہی رنج ہے تدبیر یہاں کچھ بھی نہیں


فاقہ کش لوگ ہیں سرکار کی تقریریں ہیں

خوئے تہدید ہے تبشیر یہاں کچھ بھی نہیں


جملے بازی کی چلی رسم ہے ایوانوں میں

کھوکھلے دعوے ہیں، تصویر یہاں کچھ بھی نہیں


فیصلہ نفع وضرر کا یہاں کیا ہوگا بھلا

یاس ہی یاس ہے، اکسیر یہاں کچھ بھی نہیں


یورش نقد ہے، ملت کے نگہبانوں پر

اپنے اسلاف کی توقیر یہاں کچھ بھی نہیں


آہ ونالے ہیں یہاں، ہر جگہ دیوانے ہیں

دشت ہی دشت ہے، تمصیر یہاں کچھ بھی نہیں


وصیؔ فاقوں سے جو مرتے ہیں بلکتے ہر دن

نالۂ فقر میں، تاثیر یہاں کچھ بھی نہیں

آپ کے تبصرے

3000