“کس قدر ڈوبا ہوا دل، درد کی لذت میں ہے”
زخم کھا کر مسکرانا ہی مری فطرت میں ہے
ڈھونڈتے پھرتے ہو راحت تم کہاں اے دوستو!
درحقیقت راحت دل رب کی ہی قربت میں ہے
بن کے مجنوں پھر رہا ہے تیری خاطر ہر کوئی
جاذبیت کس قدر دنیا! تری مورت میں ہے
کردیا سب کو کورونا نے پریشاں اس قدر
دیکھ کر سارا جہاں بس ورطۂ حیرت میں ہے
کیا بتاؤں ہجر کی حالت میں اظہر اب تجھے
درد سے بے چین دل میرا تری فرقت میں ہے
آپ کے تبصرے