وقت دیتا نہیں ہے کوئی آج کل
صرف دیتے ہیں تحفہ گھڑی آج کل
ہم میں انسانی فطرت یہی آج کل
جانور ہو گیا آدمی آج کل
میں نے غصے میں ترکِ تعلق کیا
اب ستاتی ہے اس کی کمی آج کل
اب محبت میں بس جسم کی بھوک ہے
سچی ہوتی نہیں دل لگی آج کل
میری آنکھوں میں دیکھو نظر آئے گی
خشک دریا میں ہے کچھ نمی آج کل
رات میں اس طرح تم نہ نکلا کرو
تم سے روٹھی ہے کچھ چاندنی آج کل
جب ضرورت پڑے بھاگ جاتے ہیں سب
صرف مطلب کی ہے دوستی آج کل
عید کا چاند نکلا ہے لے کر خوشی
ہوگئی ہر طرف روشنی آج کل
خوب روتا تھا مجھ سے جو مل کر گلے
یاد آتا ہے مجھ کو وہی آج کل
کتنی اچھی ہی غزلیں کہو تم جماؔل
داد دیتا نہیں ہے کوئی آج کل
آپ کے تبصرے