وقت کی آنکھوں میں عکسِ ناشکیبائی نہ دیکھ
بےسبب حیرانئ چشم تمنائی نہ دیکھ
شوق کی تعمیر میں جذبوں کی پسپائی نہ دیکھ
دیکھ اپنے حوصلے کو آبلہ پائی نہ دیکھ
ہر خس وخاشاک سے ہو استوار رسم وراہ
چل کہ راہ جستجو میں وادی و کھائی نہ دیکھ
سب یہاں اپنے انا کے دار پر مصلوب ہیں
سب فریبِ چشم ہےکارِ مسیحائی نہ دیکھ
ہے رفو یہ سینہء صد چاک لیکن چارہ گر
زخم کی تہہ میں اتر اندازِ ترپائی نہ دیکھ
حرف جو معنی کودے پائے نہ اپنا پیرہن
ایسی تحریروں کی دنیا کی پذیرائی نہ دیکھ
یوں نہیں ملتی یہاں معراجِ فکر و آگہی
ڈوب جا اسرار کے سینوں میں گہرائی نہ دیکھ
فکر کی ویران دنیا ہے پسِ دیوارِ حرف
لوحِ ہستی پر یہ حسنِ خامہ فرسائی نہ دیکھ
کتنی آنکھوں کوملا ہے بے بصیری کا عذاب
قلب کو بینا بنا آنکھوں کی بینائی نہ دیکھ
ان چراغوں میں ہیں شامل کتنے ارمانوں کےخون
لذت و رنگِ متاعِ بزم آرائی نہ دیکھ
یہ بھی اک آشوبِ محشر ہے کہ سب ہیں خود پرست
اس بھری دنیا میں اب اپنا شناسائی نہ دیکھ
ہم سے وابستہ ہیں کتنے کارہائے ناتمام
ہم سے آشتفتہ مزاجوں کی یہ تنہائی نہ دیکھ
آپ کے تبصرے