اور اب افتخار کاتِب بھی چل بسے

عبدالرحمن محمد یحییٰ

شہر کے معروف خَطّاط، اردو وعربی کتابت کے لیے مرجع خلائق استاذ محترم افتخار احمد کاتب ساکن پریما رائے مئو بھی عام الوفیات کے اگست کی آخری تاریخ کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
پچھلے کچھ سالوں سے وہ گردے کے عارضے میں مبتلا تھے اور اپنی حیات مستعار کو طول دینے کے لیے جتنی کوششیں کرسکتے تھے جاری رکھیں مگر قسمت نے یاوری نہ کی، صاحب فراش ہوگئے اور پھر اپنے فن سمیت ہم سب سے بہت دور چلے گئے جہاں سے جانے والے نہیں صرف ان کی یادیں آتی ہیں۔
افتخار بھائی دیکھنے میں جتنے کم گو لگتے تھے حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ خاموش طبع تھے، ایسا لگتا تھا جیسے بولنے کے لیے جتنی بھی دیر رکیں گے اتنے حروف کا نقصان ہوجائے گا اور نقصان شاید انھیں برداشت نہیں تھا۔ ایک ایسا شخص جس نے فن کتابت کو اس وقت عروج بخشا جب اردو کمپیوٹرائزڈ کتابت کا چلن بڑے بڑے شہروں میں تو ہوچلا تھا مگر ہمارا شہر ابھی اس کی آہٹ بھر ہی محسوس کر رہا تھا البتہ اس فن کا جنازہ اٹھنے کا چرچا ہر کس و ناکس کی زبان پر رہتا تھا، مسلم ثقافت اور عربی، اردو و فارسی سے جڑے اس فن کو کبھی اتنی اہمیت حاصل تھی کہ مدارس کے پرائمری درجات میں خوشخط کی پوری ایک گھنٹی اس کے لیے وقف رہتی تھی اور بسا اوقات آدمی کا رسم الخط ہی اس کا اولین تعارف ہوا کرتا تھا مگر ٹیکنالوجی کی وسعت اور برق رفتار زندگی میں اوروں کی برابری کے جنون نے اس فن کو بھی مشینی ہاتھ عطا کردیے اور دیکھتے ہی دیکھتے انسانی ہاتھ ایک عظیم نعمت سے محروم ہونے لگے اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ آج خوشخط سے صرف خط باقی رہ گیا اور خوش ہم کسی اور چیز سے ہونے لگے۔ اسی پہ خوش تھی جو دنیا تو ہم بھی کیا کرتے؟
افتخار بھائی نے اپنے قلم سے اس فن کو جس طرح استحکام عطا کیا اسے صرف اس فن کے قدر دان ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ عربی مدارس وجامعات کے رمضانی کیلنڈر ہوں یا دینی اجلاس وکانفرنس کے اشتہارات، رسائل ومجلات اور کتابوں کے ٹائٹل ہوں یا شادی کارڈ اور مساجد و میونسپلٹی کے کتبے ان کی کتابت نے اسے ایک الگ رنگ وروپ عطا کردیا کہ دیکھنے والا متحیر ہوئے بغیر نہ رہ پائے۔
کمپیوٹرائزڈ کتابت کے دور میں بھی ان کا فن اضمحلال و پژمردگی کا شکار نہیں ہوا بلکہ انھوں نے بدلتے حالات میں کمپیوٹر سے دوستی کرلی اور اپنے فن پاروں کا حسن اس کے غازہ وگلال سے مزید نکھار کر پیش کرنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی کتابت کے یہ نمونے اردو کمپوزنگ کے قدردانوں کے لیے دلچسپی و سہولت کا سامان بن گئے اور ان کی کتابت سے چنندہ الفاظ اسکین کے مرحلے سے گزر کر بہتوں کو کمک فراہم کرنے لگے۔
یادش بخیر! طلبۂ جامعہ عالیہ عربیہ مئو کے سالانہ میگزین “تہذیب” کی کتابت شروع کے چند شماروں کے بعد انھی کے یہاں ہوتی تھی۔ اس حوالے سے محترم ڈاکٹر اطہر افضال اور مولوی ذکی احمد سابق نظماءِ انجمن تہذیب البیان کی زبانی ان کا نام بارہا سننے کا اتفاق ہوتا، ان کی کتابت کی تعریف اور اکثر کام کے لیے بار بار ان کے گھر کا چکر لگانے اور مئو کی اصطلاح میں دوڑانے کا چرچا رہتا۔ شاید اسی بار بار کی دوڑ کی برکت سے ان حضرات کی افتخار بھائی سے اچھی خاصی دوستی ہوگئی جو کھانے کھلانے کے جشن تک آگئی۔ اس سلسلے میں کچھ لوگوں کا تبصرہ تو یہ بھی تھا کہ افتخار بھائی جتنا اچھا لکھتے ہیں اس سے کہیں اچھا کھانا بنالیتے ہیں، ایک بار ہمیں بھی ان بزرگوں کے ساتھ ان کے ہاتھ کے بنے ذائقہ دار سالن سے لطف اندوزہونے کا موقع ملا مگر تب ہم عمر کے اس مرحلے میں تھے جب تاخیر کی صورت میں والدین کی ڈانٹ کے خوف سے جشن کے لذیذ کھانوں کا مزہ بھی کرکرا ہوجایا کرتا تھا۔ بعد میں ان لوگوں کی یہ دوستی ہمارے کام اس صورت آئی کہ ایک دن ہم سےاطہر بھائی نے کہا کہ خالی اوقات میں کتابت کیوں نہیں سیکھ لیتے، یہ فن اگرچہ رو بہ زوال ہے مگر بہ حیثیت فن تمھیں کچھ نہ کچھ فائدہ تو ضرور ہی پہنچائے گا کہو تو افتخار بھائی سے بات کر لوں۔ پھر کیا تھا ہم نے بھی ہامی بھرلی اور اس فن کی شُدبُد حاصل کرنے ہمدمِ دیرینہ راشد کے ساتھ سائیکل سے ان کے ہاں آمدورفت شروع ہوگئی۔ وہ اپنی بیٹھک میں خطاطی کے لیے مخصوص اسٹائل میں بیٹھے محوِ کتابت ہوتے ہم اپنی بیاض ان کے حوالے کرتے وہ اصلاح کرتے اور بیاض ہمیں واپس تھما دیتے۔ جب ہمارا لکھا ان کے معیار پر پورا اترتا یا ہماری مشقت پر ترس آجاتا تو ایک دو حروف آگے بڑھاتے وگرنہ انھی حروف کا اعادہ کرکے بیاض لوٹا دیتے نہ استاذ بولنے کی ضرورت محسوس کرتے نہ شاگرد پوچھنے کی ہمت جٹا پاتے۔ کبھی کبھی کچھ پوچھنا یا سمجھنا ہوتا تو ہم دونوں کئی دنوں تک ہمت جٹاتے پھر باری متعین کرتے کہ کون پوچھے گا اور کس کو غور سے سننا ہے کہ کیا کہا۔ اس طرح سے استاذ وشاگرد کا یہ سیکھنے سکھانے کا سلسلہ کئی سالوں تک چلا بیچ بیچ میں کبھی کبھی لمبا گیپ بھی ہوجاتا مگر مجال کیا جو وہ سرزنش تو کجا استفسار بھی کرلیں کہ کہاں غائب ہوگئے تھے۔ ان دنوں مئو میں وقفے وقفے سے مسلکی نزاعات شدت اختیار کرجاتے تھے اور عوامی مناظروں ومباحثوں سے اکثر جگہوں پر مجلسیں گرم رہتی تھیں۔ افتخار بھائی کی بیٹھک بھی اس سے الگ نہیں تھی دیوبندی مکتب فکر کے حامل اور اس کے اکثریتی محلے میں وہ رہتے تھے۔ ہم لوگوں کی موجودگی میں کبھی کوئی آکر اپنے معروف الفاظ میں اہل حدیثوں کو کچھ صلواتیں سنانا شروع کردیتا تو وہ ہماری جانب دیکھ کر ہلکا سا مسکراتے اور اس کو متنبہ کرتے مگر مسلکی حمیت کا جوش اتنی جلدی کہاں سرد ہوتا ہے۔ بولنے والا اپنی رَو میں ہوتا ہے تو اسے اتنی ہلکی تنبیہ سے کچھ فرق کہاں پڑتا ہے۔ شروع میں ایک آدھ بار ہم لوگوں نے حقُّ المحنت دینا چاہا تو صاف انکار کردیا حالاں کہ یہ کوئی معیوب بات نہیں تھی اور اس وقت ان سے کتابت سیکھنے کے خواہش مندوں کی بھی کمی نہیں تھی مگر عدیم الفرصتی کے باعث وہ سب کو کیسے وقت دے پاتے۔ خط نستعلیق، خط نسخ اور خط رُقعہ کے علاوہ کئی اور خط میں وہ ید طولیٰ رکھتے تھے۔ عربی کے روایتی خط سے الگ ان کا اپنا ایک خط بھی کافی جاذب نظر ہوتا تھا، آج سوچتا ہوں کاش کوئی ایسا شخص ان سے اس فن میں استفادہ کرتا جو ان کی فنی وراثت کو انھی کے انداز میں سنبھال پاتا۔ ہم نے اس فن کو سیکھنے کی کوشش تو ضرور کی مگر کارِ جہاں دراز ہے کے مصداق دوسری مشغولیات نے بہت جلد زندگی کا رخ دوسرے میدانوں کی طرف موڑ دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان سے سیکھا ہوا تھوڑا بہت جو کچھ بھی تھا ہمیں برابر فائدہ پہنچاتا رہا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
افتخار بھائی کی موت ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک فن کی موت کے مترادف ہے جس کی بازیابی کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی کہ عہد نو میں اس فن سے آشنائی پر توجہ مفقود ہے اس لیے کہ اب قلم کے بجائے انگلیاں ہی لکھتی ہیں۔ ایسے میں ان کی کتابت کے نادر نمونوں کی قدر بھلا نسل نو کیا جانے گی البتہ جن کا ذوق اس سلسلے میں اعلی درجے کا ہے ان کو افتخار بھائی کی کمی ضرور محسوس ہوگی۔ اللہ رب العزت مرحوم کی بشری لغزشوں کو معاف فرمائے، نیکیوں کو شرف قبولیت عطا کرے اور انھیں جنۃ الفردوس کا مستحق بنائے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000