مگر خار ہیں نئے

کاشف شکیل شعروسخن

گل ہیں سبھی قدیم‌ مگر خار ہیں نئے

ہم زیست کی کہانی کے کردار ہیں نئے


جن کی جفا پرستی میں گزری ہے زندگی

وہ کہہ رہے ہیں آپ وفادار ہیں نئے


دنیا میں بس فنا کو ہوئی ہے بقا نصیب

لگتا ہے آپ موت سے دوچار ہیں نئے


کیا ہو خزاں کی رت پہ بھلا ان سے تبصرہ

جو وصل نو بہار سے سرشار ہیں نئے


واعظ ہمیں سکھا نہ تو آئین آگہی

ہم کیا دیار ہوش کے غدار ہیں نئے


اے شعر ساز اب تو جلا خون دل کچھ اور

افکار سب پرانے ہیں اشعار ہیں نئے


بچپن سے رائیگانی لیے ڈھو رہے ہیں ہم

دنیا‌ سمجھ رہی ہے کہ بیکار ہیں نئے


کیسا خلوص؟ کیسی وفا؟ اور کہاں کا عشق؟

لگتا ہے آپ قیس کے اوتار ہیں نئے


ہم شاہراہ دین‌ محمد کے راہ رو

ہم امت رسول کے معمار ہیں نئے


کاشف! یہ شاعری ہے کہ آشوبی مزاج؟

ہر شعر میں جناب کے معیار ہیں نئے

آپ کے تبصرے

3000