(یہ نعتیہ نظم مدینہ منورہ سے واپسی پر کہی گئی)
بہت سے خوب صورت شہر دیکھے
لہلہاتی وادیاں اور خوشنما باغات دیکھے
آئینے جیسے چمکتے پانیوں کی جھیل دیکھی
چاندنی سی صاف ستھری ندّیاں دیکھیں
پہاڑوں کا جلال اور ریگزاروں کی چمک دیکھی
زمین وآسماں میں
خوب صورت منظروں کا سلسلہ دیکھا
مگر اب ایسا لگتا ہے
کہ میں نے کچھ نہیں دیکھا
کبھی بھی کچھ نہیں دیکھا
کوئی منظر کوئی صورت
مرے دل میں نہیں ہے اب
کوئی پیکر کوئی بستی
نگاہوں میں نہیں میری
سوائے ایک بستی کے
وہ بستی جنت ارضی
وہ بستی نور کا مرکز
وہ بستی علم وحکمت کی
اخوت کی مروت کی
عبادت کی ریاضت کی
مدینہ جس کو کہتے ہیں
جہاں پر رحمت کونین رہتے ہیں
جہاں سے واپس آئے ایک مدت ہوگئی مجھ کو
مگر اب بھی تخیل کے ورق پر
بس مدینے ہی کا نقشہ ہے
وہی رحمت کی بستی ہر گھڑی آباد ہے دل میں
رسول پاک کی مسجد کے اونچے اونچے مینارے
حسیں محراب ومنبر
اور وہ باب السلام وبابِ رحمت یادآتے ہیں
قبا کی پہلی وہ مسجد
بقیع الغرقد وجبلِ احد سب یاد آتے ہیں
وہ روضہ جو مقدس ہے
جو اک ٹکڑا ہے جنت کا
جو گوشہ ہے عقیدت کا
اسی شہر تمنا کی محبت میں تڑپتاہوں
دلِ پُر شوق بس یہ چاہتا ہے
پر لگا کر میں
اسی شہر تمنا کی طرف پرواز کرجاتا
مدینہ! تیرے پہلو میں چلا آتا
ترے پاکیزہ دامن میں جگہ پاتا
میں سرکار مدینہ کی مقدس سرزمیں پر زندگی کرتا
وہیں جیتا وہیں مرتا
نبیِّ پاک کے پہلو میں رہ کر جھولی میں سب نیکیاں بھرتا
مدینہ! میں تری ارض مقدس میں سپرد خاک ہوجاتا
مگر میں کیا کروں، مجبور وبے بس ہوں
مری راہوں میں ملکوں کی خیالی سرحدوں کی باڑھ حائل ہے
مگر تو منزلِ مقصود ہے میری
تجھی کو ہر گھڑي میں یاد کرتا ہوں
تری جنت میں آنے کے لیے
اپنے نہایت مہرباں رب سے
بہت فریاد کرتا ہوں
مجھے امید ہے اس کے کرم سے
ایک دن میری دعا کی شاخ پر
وہ پھول لائے گا
مری اجلی تمناؤں کو بار آور بنائے گا
مجھے اپنے جبیب پاک کی
پاکیزہ بستی میں بلائے گا
مدینہ ! پھر ترے سائے میں آؤں گا
تری ہی دید سے میں
تشنگی اپنی بجھاؤں گا
اللہ اللہ۔۔
کیا ہی زبردست شاہکار ہے۔۔
دکھا دے یا الٰہی وہ مدینہ کیسی بستی ہے
جہاں پہ رات دن مولی تری رحمت برستی ہے