عالمِ ہُو میں امیدوں کا اشارہ تو ملے
زندہ رہنے کا کوئی ایک سہارا تو ملے
کیا ستم ڈھائے ہیں تنہائی نے بتلاؤں اسے
مجھ کو بچھڑا ہوا وہ شخص دوبارہ تو ملے
اس کی آنکھوں کے سمندر نے ڈبویا ہے بہت
کیسے بچ نکلوں مجھے کوئی کنارہ تو ملے
کالی راتوں میں کہاں اس کو تلاشوں مولا
راہ بتلائے کوئی ایسا ستارہ تو ملے
گلشنِ دل میں نئے پھول کِھلیں شان کے ساتھ
اس پری زاد کے چہرے کا نظارہ تو ملے
راہ میں خوف کا پہرہ ہو کہ کانٹوں کا ہجوم
غم نہیں کوئی مگر پیار تمھارا تو ملے
مجھ کو ممتاز سبھی اپنا کہے جاتے ہیں
میں کسے اپنا کہوں کوئی ہمارا تو ملے
آپ کے تبصرے