جنت سے اتارے ہوئے لوگ

محمد وسیم مخلصؔ شعروسخن

دشت امکان میں ادراک کے مارے ہوئے لوگ

زندگی کے سبھی میدان میں ہارے ہوئے لوگ


میرے کردار کو مشکوک بنا دیتے ہیں

یہ جو کچھ لوگ ہیں، جنت سے اتارے ہوئے لوگ


دل کے صحرا میں تری زلف کا موہوم خیال

اس خرابی میں بھلا کس کے سہارے ہوئے لوگ


سب کو یہ ضد تھی کہ مقتل یہیں لایا جائے

رقص بسمل کا جو دیکھا تو کنارے ہوئے لوگ


وہ جو پیاسے تھے مرے خونِ جگر کے کل تک

پاس آتے ہی مرے جان سے پیارے ہوئے لوگ


روک کر ہاتھ مرا جام سے کہتے ہیں کہ ’’واں‘‘

کس قدر بگڑے ہیں واعظ کے سدھارے ہوئے لوگ

آپ کے تبصرے

3000