دنیا عذاب گاہ دل پائمال ہے

سلمان ملک فائز بلرامپوری شعروسخن

معمور درد و غم سے ہر اک ماہ و سال ہے

ہر وقت اب تو بارش حزن و ملال ہے


تم حوصلوں سے شوق کی تعمیر نو کرو

دنیا عذاب گاہ دل پائمال ہے


خانہ بدوش شہر دریدہ لباس ہیں

چہروں پہ ان کے پھر بھی عجب اندمال ہے


ڈھونڈھو تو چشم خویش نگر ایک بھی نہیں

آئینہ دار دیکھو تو ہر خد و خال ہے


سب اپنی اپنی حد انا میں ہیں مطمئن

اب کون اس دیار میں آشفتہ حال ہے


یاں اتنے سانحات و حوادث ہیں دم بدم

جو سانحہ ہے سانحہ ارتحال ہے


خوش تو شب وصال میں ہم ہیں مگر رقیب

کچھ کچھ شب فراق کا بھی احتمال ہے


ہرشخص مصلحت کے تقاضوں کا ہے اسیر

بے وجہ کون شہر میں پرسان حال ہے


وہ ایک شخص رفعت علم و شعور میں

ہمسایہ فلک ہے رفیق ہلال ہے


فائز کتاب زیست کے ہر اقتباس میں

مجروح آگہی ہے شکستہ خیال ہے

آپ کے تبصرے

3000