استاذ گرامی مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی رحمہ اللہ (۲؍جولائی۱۹۱۶-۶؍مئی ۱۹۷۸ء)

صلاح الدین مقبول احمد مدنی شعروسخن

قلم ان کا رواں تھا، تھی طبیعت میں بھی جولانی

نہ خوف لومت لائم رہ حق میں، نہ حیرانی

تھے ان کے معترف عامرؔ تجلّی کے، وہ عثمانیؔ

انھیں کہتی ہے دنیا حضرت آزادؔ رحمانی

نذیر املویؔ کی ان کو حاصل رہنمائی تھی

مبارک پورؔ میں تعلیم ان کی رنگ لائی تھی


ادب، شعرو سخن میں ان کو یک گو نہ تھی یکتائی

ادائے بحث تحریری میں تھی معروف گیرائی

نوائے شاعری میں جان جاناں کی تھی رعنائی

تھے استاد سخن آتی تھی ان کو بزم آرائی

کیا کرتے تھے بزم جامعہؔ میں پیش نذرانہ

بہت مشہور تھی ماحول میں شان ادیبانہ


حدیثؔ و فقہؔ اور میراثؔ کی تعلیم پائی تھی

’خلافیّات‘میں تھا درک اور اعلی رسائی تھی

عجب انداز میں فتوی نویسی کی ادائی تھی

’محدّث‘ کی ادارت بھی انھی کے حق میں آئی تھی

انھی اوقات میں وہ صاحب تدریس ہوتے تھے

ہر اک کار نمایاں میں سدا ادریسؔ ہوتے تھے


بہت آزاد تھے آزادؔ، علم و فن کے ماہر تھے

محدثؔ، شاعرؔ و مفتیؔ تھے، تحریری مناظرؔ تھے

نذیرؔ املوی استاد ان کے حق بظاہر تھے

حبیبؔ اعظمی ان کے مقابل میں مکابر تھے

دفاع حق میں وہ اپنے مخالف سے نہ گھبرائے

تجلّیؔ کے مدیر محترم سے بھی وہ ٹکرائے


تعارف جامعہؔ کا، ان کی تحریروں سے ہوتا تھا

جناب ازہریؔ جیسے انھی ہیروں سے ہوتا تھا

امور جامعہؔ کا نظم دل گیروں سے ہوتا تھا

انھی تربت نشینوں سے، انھی میروں سے ہوتا تھا

رہا ہے جامعہؔ کے دور اول کا یہی قصّہ

انھی جیسے جیالوںؔ کا ترقی میں رہا حصّہ


کبھی تعدیلؔ ہوتی اور کبھی تجریحؔ ہوتی تھی

جو شیخؔ الجامعہ سے مل کے کچھ تفریح ہوتی تھی

بہت سارے مسائل کی عجب تنقیح ہوتی تھی

امور جامعہؔ کی بھی وہیں توضیح ہوتی تھی

یہی سب جامعہؔ میں دور اوّل کے سپاہی تھے

مدرّسؔ تھے محرّرؔ بھی تھے، رمز خیر خواہی تھے


نہیں کرنے کے عادی تھے وہ اظہار غم و شادی

انھیں ان کے لقبؔ سے مل گئی تھی ایسی آزادی

کبھی کچھ پیش کی خدمت میں تو اصلاح فرمادی

وہ تھے استاد، آتی تھی انھیں در اصل استادی

قناعت، صبر شکر و علم و فن کی بالادستی تھی

یہی آداب عالی تھے، کہیں کوئی نہ پستی تھی


یہی تھی ابتدا مصلحؔ ، یہی انجام تھا ان کا

عجب خاموش سا یہ عمر بھر پیغام تھا ان کا

یہی کچھ روز مرّہ جامعہؔ میں کام تھا ان کا

بس اک انداز سے یہ دور صبح و شام تھا ان کا

بہت اوصاف تھے موجود اپنے اس جیالے میں

’’کہ رب بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں‘‘

مصلحؔ نوشہروی( ۱۵؍۱۰؍۲۰۱۵ء، نئی دہلی)

آپ کے تبصرے

3000