کوئی نگاہ بھی اپنا مقام چاہتی ہے

محمد وسیم مخلصؔ شعروسخن

تری نظر میں محبت دوام چاہتی ہے

ادب کے باب میں کچھ احترام چاہتی ہے


شکستہ پائی شکست جنوں نہ بن جائے

یہ ہم رکابی مسلسل قیام چاہتی ہے


میں اس امید کو پیرایۂ حسیں کیا دوں

جو التفات کرم پیش گام چاہتی ہے


میری انا ہی میری آرزو کی قاتل ہے

کہ تشنگی بھی بصد اہتمام چاہتی ہے


خیال خام کے اس بے کراں سمندر میں

کوئی نگاہ بھی اپنا مقام چاہتی ہے


نسیم صبح تیری زلف چوم کر گزری

سو داد مستیٔ روش خرام چاہتی ہے


ہر ایک جرم ٹھہر جائے وجہ دار و رسن

یہ خلق بھی کوئی ایسا نظام چاہتی ہے

آپ کے تبصرے

3000