حضرت شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانیؔ مبارک پوری رحمہ اللہ

صلاح الدین مقبول احمد مدنی شعروسخن

حضرت شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانیؔ مبارک پوری رحمہ اللہ
(صاحب مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح)
(۱۹۰۹- ۱۹۹۴ء)

وفا، علم و ہنر، صدق و صفا اور پاک دامانی

زمیں کیا آسماں میں ہوتی ہے ان کی ثناخوانی

مزیّن ان کی گل کاری سے ہے یہ بزم انسانی

اسی دم خم کے مرد حق: عبیداللہ رحمانی

بہ انداز عجم ساز عرب کا اک اعادہ ہے

مبارک پور وہ مشہور علمی خانوادہ ہے


مبارکؔ پور تو ہے ’’صاحب تحفہؔ‘‘ کا کاشانہ

’’بخاریؔ کی سوانح‘‘سے مزیّن ہے کتب خانہ

’’رحیق‘‘سیرت نبوی کا یاں چھلکا ہے پیمانہ

رفیق درس اپنا تھا ’’رضاءؔ اللہ‘‘دردانہ

رم موسی سے جیسے ذکر کوہ طور باقی ہے

دم مردان حق سے یہ مبارکپورؔ باقی ہے


انھیں بس تھی کتاب و سنت و منہج سے انسیّت

مسلّم تھی ہر اک ماحول میں شیخ الحدیثیّت

بتاؤں کیا زمانے میں تھی ان کی اپنی حیثیت

نقیب علم و عرفاں آبروئے بزم سلفیّت

تواضع، خاکساری، زہد و تقوی کی فراوانی

شناور علم کے ، کچھ بھی نہ دعوائے ہمہ دانی


سراپا ان کا ہے ’’مرعاۃؔ‘‘کے علمی مسائل میں

جھلک موجود ہے ’’فقہ و فتاوی‘‘کے رسائل میں

ہے شہرہ علم و فن کا بھی ممالک میں ، قبائل میں

بہت ممتاز تھے آداب و اخلاق و شمائل میں

زباں زد ہر طرف ان کی جو اپنی میزبانی ہے

ادب کی پاسبانی اور سنت کی نشانی ہے


بہت تھے نام ور تدریس میں ’’رحمانیہؔ‘‘والے

رہے تعلیم و تربیت میں وہ معروف شہ بالے

درخشاں زمرۂ تدریس میں ، طلبہ بھی متوالے

مقابل میں تعصب کے تھے ’’قال اللہ‘‘کے نالے

فضائے سنت و توحید میں وہ عطر بیزی تھی

اسی سے ہندِؔ متحدہ میں حق کی رنگ ریزی تھی


رواں تھا شرح سنت میں بہت زیادہ قلم ان کا

دلائل سے ہی توڑا ہے تعصب کا صنم ان کا

بلندی پر تھا جو فقہ و فتاوی میں علم ان کا

ثناخواں علم و فن میں ہے عربؔ ان کا ، عجمؔ ان کا

امیری ہے یہی شاہی یہی تاج سلیمانی

کیا کرتے تھے ذکر خیر جو بن بازؔ و البانیؔ


رہی ہے ’’عون‘‘ کی تالیف میں ’’تحفہ‘‘کی گل کاری

رہین منت حضرتؔ بھی ہے ’’تحفہ‘‘کی تیاری

در’’مرعاۃ‘‘سے تحقیق میں آئی جو بیداری

ہوئی ہے ختم تقلید و تعصب کی گراں باری

قوی تر اس سے سنت کی صدائے بالا دستی ہے

جو شہرہ اس کا ہر سو قریہ قریہ بستی بستی ہے


مدارسؔ کی تھی نگرانی ، علاقے میں بشارت تھی

انھی کے حق میں ’’سلفیہ‘‘بنارسؔ کی صدارت تھی

نہ کوئی شغل دامن گیر ، نہ کوئی تجارت تھی

فقط علم و ہنر ، صدق و صفا میں ہی مہارت تھی

نہیں دیکھا سنا ان کا کوئی حال پراگندہ

وہ تھے ویسے ہی ، جیسے ہوتا ہے اللہ کا بندہ


وہ علم و فضل و تقوی میں سلف کے تھے نمائندہ

رہے مصلحؔ وہ ہر محفل میں تابندہ درخشندہ

انھی جیسوں کے جد و جہد سے منہج رہا زندہ

رہے یہ منہج اسلاف امت زندہ، پائندہ!

ہے علم و فضل کا شہرہ انھی جیسے جیالوں سے

ہے باقی منہج سنت انھی اللہ والوں سے

مصلحؔ نوشہروی(۲۴؍۱۰؍۲۰۱۵ء، نئی دہلی)

آپ کے تبصرے

3000